وَ اسۡتَمِعۡ یَوۡمَ یُنَادِ الۡمُنَادِ مِنۡ مَّکَانٍ قَرِیۡبٍ ﴿ۙ۴۱﴾

(41 - قٓ)

Qari:


And listen on the Day when the Caller will call out from a place that is near -

اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا

[وَاسْتَمِعْ يَوْمَ : اور سنو جس دن [يُنَادِ الْمُنَادِ : پکارنے والا پکاریگا] [مِنْ مَّكَانٍ : جگہ سے] [قَرِيْبٍ : قریب]

Tafseer / Commentary

جب ہم سب قبروں سے نکل کھڑے ہوں گے
حضرت کعب احبار فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو حکم دے گا کہ بیت المقدس کے پتھر پر کھڑا ہو کر یہ آواز لگائے کہ اے سڑی گلی ہڈیو اور اے جسم کے متفرق اجزاؤ اللہ تمہیں جمع ہو جانے کا حکم دیتا ہے تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے ، پس مراد اس سے صور ہے یہ حق اس شک و شبہ اور اختلاف کو مٹا دے گا جو اس سے پہلے تھا یہ قبروں سے نکل کھڑے ہونے کا دن ہوگا ابتداءً ًیہ پیدا کرنا پھر لوٹانا اور تمام خلائق کو ایک جگہ لوٹا لانا یہ ہمارے ہی بس کی بات ہے ۔ اس وقت ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ ہم دیں گے تمام بھلائی برائی کا عوض ہر ہر شخص کو پا لے گا زمین پھٹ جائے گی اور سب جلدی جلدی اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش برسائے گا جس سے مخلوقات کے بدن اگنے لگیں گے جس طرح کیچڑ میں پڑا ہوا دانہ بارش سے اگ جاتا ہے ۔ جب جسم کی پوری نشوونما ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ حضرت اسرافیل کو صور پھونکنے کا حکم دے گا ۔ تمام روحیں صور کے سوراخ میں ہوں گی ان کے صور پھونکتے ہی روحیں آسمان کے درمیان پھرنے لگ جائیں گی اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا میرے عزت و جلال کی قسم ہر روح اپنے اپنے جسم میں چلی جائے جسے اس نے دنیا میں آباد رکھا تھا ۔ پس ہر روح اپنے اپنے اصلی جسم میں جا ملے گی اور جس طرح زہریلے جانور کا اثر چوپائے کے رگ و ریشہ میں بہت جلد پہنچ جاتا ہے اس طرح اس جسم کے رگ و ریشے میں فوراً روح دوڑ جائے گی اور ساری مخلوق اللہ کے فرمان کے ماتحت دوڑتی ہوئی جلد از جلد میدان محشر میں حاضر ہو جائے گی یہ وقت ہوگا جو کافروں پر بہت ہی سخت ہو گا۔ فرمان باری ہے آیت ( يَوْمَ يَدْعُوْكُمْ فَتَسْتَجِيْبُوْنَ بِحَمْدِهٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا 52؀ۧ) 17- الإسراء:52)، یعنی جس دن وہ تمہیں پکارے گا تم اس کی تعریفیں کرتے ہوئے جواب دو گے اور سمجھتے ہو گے کہ تم بہت ہی کم ٹھہرے ۔ صحیح مسلم میں ہے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں سب سے پہلے میری قبر کی زمین شق ہوگی ۔ فرماتا ہے کہ یہ دوبارہ کھڑا کرنا ہم پر بہت ہی سہل اور بالکل آسان ہے جیسے اللہ جل جلالہ نے فرمایا آیت ( وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْحٍۢ بِالْبَصَرِ 50؀) 54- القمر:50) یعنی ہمارا حکم اس طرح یکبارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ کا جھپکنا اور آیت میں ہے آیت ( مَا خَلْقُكُمْ وَلَا بَعْثُكُمْ اِلَّا كَنَفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۭ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ 28؀) 31- لقمان:28)، یعنی تم سب کا پیدا کرنا اور پھر مارنے کے بعد زندہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ ایک شخص کو سننے دیکھنے والا ہے ۔ پھر جناب باری کا ارشاد ہوتا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں ہمارے علم سے باہر نہیں تو اسے اہمیت نہ دے ہم خود نپٹ لیں گے جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ 97؀ۙ) 15- الحجر:97)، واقعی ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ جو باتیں بناتے ہیں اس سے آپ تنگ دل ہوتے ہیں سو اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے پروردگار کی پاکی اور تعریف کرتے رہیے اور نمازوں میں رہیے اور موت آجانے تک اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیے ۔ پھر فرماتا ہے تو انہیں ہدایت پر جبرًا نہیں لا سکتا نہ ہم نے تجھے اس کا مکلف بنایا ہے ۔ یہ بھی معنی ہیں کہ ان پر جبر نہ کرو ، لیکن پہلا قول اولیٰ ہے کیونکہ الفاظ میں یہ نہیں کہ تم ان پر جبر نہ کرو بلکہ یہ ہے کہ تم ان پر جبار نہیں ہو یعنی آپ مبلغ ہیں تبلیغ کر کے اپنے فریضے سے سبکدوش ہو جائیے جبر معنی میں اجبر کے بھی آتا ہے ۔ آپ نصیحت کرتے رہیے جس کے دل میں خوف اللہ ہے جو اس کے عذابوں سے ڈرتا ہے اور اس کی رحمتوں کا امیدوار ہے وہ ضرور اس تبلیغ سے نفع اٹھائے گا اور راہ راست پر آجائے گا جیسے فرمایا ہے آیت ( وَاِنْ مَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِيْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلٰغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ 40۔) 13- الرعد:40) یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمے ہے اور آیت میں ہے آیت ( فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21؀ۭ) 88- الغاشية:21) تو نصیحت کرنے والا ہے کچھ ان پر داروغہ نہیں ۔ اور جگہ ہے تمہارے ذمہ ان کی ہدایت نہیں بلکہ اللہ جسے چاہے ہدایت کرتا ہے اور جگہ ہے آیت ( اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ ۚوَهُوَ اَعْلَمُ بالْمُهْتَدِيْنَ 56؀) 28- القصص:56)، یعنی تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہے راہ راست پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ اسی مضمون کو یہاں بھی بیان فرمایا ہے ۔ حضرت قتادہ اس آیت کو سن کر یہ دعا کرتے (اللھم اجعلنا ممن یخاف وعیدک ویرجو موعدک یا بار یا رحیم ) یعنی اے اللہ تو ہمیں ان میں سے کر جو تیری سزاؤں کے ڈراوے سے ڈرتے ہیں اور تیری نعمتوں کے وعدے کی امید لگائے ہوئے ہیں اے بہت زیادہ احسان کرنیوالے اور اے بہت زیادہ رحم کرنے والے۔ سورۃ ق کی تفسیر ختم ہوئی۔ والحمد للہ وحدہ وحسبنا اللہ ونعم الوکیل ۔

Select your favorite tafseer