Qari: |
The People of the Scripture ask you to bring down to them a book from the heaven. But they had asked of Moses [even] greater than that and said, "Show us Allah outright," so the thunderbolt struck them for their wrongdoing. Then they took the calf [for worship] after clear evidences had come to them, and We pardoned that. And We gave Moses a clear authority.
(اے محمدﷺ) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں کہ تم ان پر ایک (لکھی ہوئی) کتاب آسمان سے اتار لاؤ تو یہ موسیٰ سے اس سے بھی بڑی بڑی درخواستیں کرچکے ہیں (ان سے) کہتے تھے ہمیں خدا ظاہر (یعنی آنکھوں سے) دکھا دو سو ان کے گناہ کی وجہ سے ان کو بجلی نے آپکڑا۔ پھر کھلی نشانیاں آئے پیچھے بچھڑے کو (معبود) بنا بیٹھے تو اس سے بھی ہم نے درگزر کی۔ اور موسیٰ کو صریح غلبہ دیا
[يَسْــَٔــلُكَ: آپ سے سوال کرتے ہیں] [اَهْلُ الْكِتٰبِ: اہل کتاب] [اَنْ: کہ] [تُنَزِّلَ: اتار لائے] [عَلَيْهِمْ: ان پر] [كِتٰبًا: کتاب] [مِّنَ: سے] [السَّمَاۗءِ: آسمان] [فَقَدْ سَاَلُوْا: سو وہ سوال کر چکے ہیں] [مُوْسٰٓى: موسی] [اَكْبَرَ: بڑا] [مِنْ ذٰلِكَ: اس سے] [فَقَالُوْٓا: انہوں نے کہا] [اَرِنَا: ہمیں دکھائے] [اللّٰهَ: اللہ] [جَهْرَةً: علانیہ] [فَاَخَذَتْهُمُ: سو انہیں آپکڑا] [الصّٰعِقَةُ: بجلی] [بِظُلْمِهِمْ: ان کے ظلم کے باعث] [ثُمَّ: پھر] [اتَّخَذُوا: انہوں نے بنالیا] [الْعِجْلَ: بچھڑا (گؤسالہ)] [مِنْۢ بَعْدِ: اس کے بعد] [مَا: کہ] [جَاۗءَتْهُمُ: ان کے پاس آئیں] [الْبَيِّنٰتُ: نشانیاں] [فَعَفَوْنَا: سو ہم نے درگزر کیا] [عَنْ ذٰلِكَ: اس سے (اس کو)] [وَاٰتَيْنَا: اور ہم نے دیا] [مُوْسٰى: موسی] [سُلْطٰنًا: غلبہ] [مُّبِيْنًا: ظاہر (صریح)]
محسوس معجزہ کی مانگ اور بنی سرائیل کی حجت بازیاں
یہودیوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے توراۃ ایک ساتھ لکھی ہوئی ہمارے پاس لائے، آپ بھی کوئی آسمانی کتاب پوری لکھی لکھائی لے آیئے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے نام اللہ تعالیٰ خط بھیجے کہ ہم آپ کی نبوت کو مان لیں۔ یہ سوال بھی ان کا بدنیتی سے بطور مذاق اور کفر تھا۔ جیسا کہ اہل مکہ نے بھی اسی طرح کا ایک سوال کیا تھا، جس طرح سورہ سبحان میں مذکور ہے کہ "جب تک عرب کی سر زمین میں دریاؤں کی ریل پیل اور ترو تازگی کا دور دورہ نہ ہو جائے ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ " پس بطور تسلی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی اس سرکشی اور بیجا سوال پر آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں ان کی یہ بد عادت پرانی ہے، انہوں نے حضرت موسیٰ سے اس سے بھی زیادہ بیہودہ سوال کیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ خود کو دکھائے۔ اس تکبر اور سرکشی اور فضول سوالوں کی پاداش بھی یہ بھگت چکے ہیں یعنی ان پر آسمانی بجلی گری تھی۔ جیسے سورہ بقرہ میں تفصیل وار بیان گذر چکا۔ ملاحظہ ہو آیت (وَاِذْ قُلْتُمْ يٰمُوْسٰى لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى نَرَى اللّٰهَ جَهْرَةً فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ) 2۔ البقرۃ:52) یعنی "جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم تجھ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ کو ہم صاف طور پر اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس تمہیں بجلی کے کڑاکے نہ پکڑ لیا اور ایک دوسرے کے سامنے سب ہلاک ہو گئے، پھر بھی ہم نے تمہاری موت کے بعد دوبارہ تمہیں زندہ کر دیا تا کہ تم شکر کرو۔ " پھر فرماتا ہے کہ "بڑی بڑی نشانیاں دیکھ چکنے کے بعد بھی ان لوگوں نے بچھڑے کو پوجنا شروع کر دیا۔ " مصر میں اپنے دشمن فرعون کا حضرت موسیٰ کے مقابلے میں ہلاک ہونا اس کے تمام لشکروں کا نامرادی کی موت مرنا، ان کا دریا سے بچ کر پار نکل آنا، ابھی ابھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہوا تھا لیکن وہاں سے چل کر کچھ دور جا کر ہی بت پرستوں کو بت پرستی کرتے ہوئے دیکھ کر اپنے پیغمبر سے کہتے ہیں "ہمارا بھی ایک ایسا ہی معبود بنا دو۔ " جس کا پورا بیان سورہ اعراف میں ہے اور سورہ طہ میں بھی ۔ پھر حضرت موسیٰ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں، ان کی توبہ کی قبولیت کی یہ صورت ٹھہرتی ہے کہ جنہوں نے گو سالہ پرستی نہیں کی وہ گوسالہ پرستوں کو قتل کریں۔ جب قتل شروع ہو جاتا ہے، اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے اور مرے ہوؤں کو بھی دوبارہ زندہ کر دیتا ہے۔ پس یہاں فرماتا ہے ہم نے اس سے بھی درگذر کیا اور یہ جرم عظیم بھی بخش دیا اور موسیٰ کو ظاہر حجت اور کھلا غلبہ عنایت فرمایا اور جب ان لوگوں نے توراۃ کے احکام ماننے سے انکار کر دیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فرمانبرداری سے بیزاری ظاہر کی تو ان کے سروں پر طور پہاڑ کو معلق کھڑا کر دیا اور ان سے کہا کہ اب بولو! پہاڑ گرا کر پاش پاش کر دیں یا احکام قبول کرتے ہو؟ تو یہ سب سجدے میں گر پڑے اور گریہ زاری شروع کی اور احکام الٰہی بجا لانے کا مضبوط عہد و پیمان کیا یہاں تک کہ دل میں دہشت تھی اور سجدے میں کنکھیوں سے اوپر دیکھ رہے تھے کہ کہیں پہاڑ نہ گر پڑے اور دب کر نہ مر جائیں، پھر پہاڑ ہٹایا گیا۔ ان کی دوسری کشی کا بیان ہو رہا ہے کہ قول و فعل دونوں کو بدل دیا، حکم ملا تھا کہ بیت المقدس کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں "یعنی اے اللہ ہماری خطائیں بخش کہ ہم نے جہاد چھوڑ دیا اور تھک کر بیٹھ رہے جس کی سا میں چالیس سال میدان تیہ میں سرگشتہ و حیران و پریشان رہے" لیکن ان کی کم ظرفی کا یہاں بھی مظاہرہ ہوا اور اپنی رانوں کے بل گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہونے لگے اور حنطتہ فی شعرۃ کہنے لگے یعنی گیہوں کی بالیں ہمیں دے۔ پھر ان کی اور شرارت سنئے ہفتہ وار دن کی تعظیم و کریم کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمربستہ ہو کر حرمت کرنے کا ان سے وعدہ لیا گیا اور مضبوط عہد و پیمان ہو گیا لیکن انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی نافرمانی پر کمر بستہ ہو کر حرمت کے ارتکاب کے حیلے نکال لئے۔ جیسے کہ سورہ اعراف میں مفصل بیان ہے ملاحظہ ہو آیت (وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ) 7۔ الاعراف:163) ایک حدیث میں بھی ہے کہ یہودیوں سے خاصتہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ والے دن کی تعظیم کا عہد لیا تھا۔ یہ پوری حدیث سورہ سبحان کی آیت (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍۢ بَيِّنٰتٍ فَسْــــَٔـلْ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِذْ جَاۗءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّىْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰي مَسْحُوْرًا) 17۔ الاسراء:101) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ!