So have you considered al-Lat and al-'Uzza?
بھلا تم لوگوں نے لات اور عزیٰ کو دیکھا
[اَفَرَءَيْتُمُ اللّٰتَ : کیا پھر دیکھا تم نے لات کو] [وَالْعُزّٰى : اور عزی کو]
بتکدے کیا تھے؟
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ مشرکین کو ڈانٹ رہا ہے کہ وہ بتوں کی اور اللہ کے سوا دوسروں کی پرستش کرتے ہیں اور جس طرح خلیل اللہ نے بحکم اللہ بیت اللہ بنایا ہے یہ لوگ اپنے اپنے معبودان باطل کے پرستش کدے بنا رہے ہیں ۔ لات ایک سفید پتھر منقش تھا جس پر قبہ بنا رکھا تھا غلاف چڑھائے جاتے تھے مجاور محافظ اور جاروب کش مقرر تھے اس کے آس پاس کی جگہ مثل حرم کی حرمت و بزرگی والی جانتے تھے اہل طائف کا یہ بت کدہ تھا قبیلہ ثقیف اس کا پجاری اور اس کا متولی تھا ۔ قریش کے سوا باقی اور سب پر یہ لوگ اپنا فخر جتایا کرتے تھے ۔ ابن جریر فرماتے ہیں ان لوگوں نے لفظ اللہ سے لفظ لات بنایا تھا گویا اس کا مؤنث بنایا تھا اللہ کی ذات تمام شریکوں سے پاک ہے ایک قرأت میں لفظ لات تاکہ تشدید کے ساتھ ہے یعنی گھولنے والا اسے لات اس معنی میں اس لئے کہتے تھے کہ یہ ایک نیک شخص تھا موسم حج میں حاجیوں کو ستو گھول گھول کر پلاتا تھا اس کے انتقال کے بعد لوگوں نے اس کی قبر پر مجاورت شروع کر دی رفتہ رفتہ اسی کی عبادت کرنے لگے۔ اسی طرح لفظ عزیٰ لفظ عزیر سے لیا گیا ہے مکے اور طائف کے درمیان نخلہ میں یہ ایک درخت تھا اس پر بھی قبہ بنا ہوا تھا چادریں چڑھی ہوئی تھیں قریش اس کی عظمت کرتے تھے۔ ابو سفیان نے احد والے دن بھی کہا تھا ہمارا عزیٰ ہے اور تمہارا نہیں جس کے جواب میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہلوایا تھا اللہ ہمارا والی ہے اور تمہاری کوئی نہیں صحیح بخاری میں ہے جو شخص لات عزیٰ کی قسم کھابیٹھے اسے چاہیے کہ فورا لا الہ الا للہ کہہ لے اور جو اپنے ساتھی سے کہہ دے کہ آ جوا کھیلیں اسے صدقہ کرنا چاہیے ، مطلب یہ ہے کہ جاہلیت کے زمانہ میں چونکہ اسی کی قسم کھائی جاتی تھی تو اب اسلام کے بعد اگر کسی کی زبان سے اگلی عادت کے موافق یہ الفاظ نکل جائیں تو اسے کلمہ پڑھ لینا چاہیے حضرت سعد بن وقاص ایک مرتبہ اسی طرح لات و عزیٰ کی قسم کھا بیٹھے جس پر لوگوں نے انہیں متنبہ کیا یہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس گئے آپ نے فرمایا دعا (لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر ) پڑھ لو اور تین مرتبہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھ کر اپنی بائیں جانب تھوک دو اور آئندہ سے ایسا نہ کرنا مکے اور مدینے کے درمیان قدید کے پاس مثلل میں مناۃ تھا ۔ قبیلہ خزاعہ ، اوس، اور خزرج جاہلیت میں اس کی بہت عظمت کرتے تھے یہیں سے احرام باندھ کر وہ حج کعبہ کے لئے جاتے تھے اسی طرح ان تین کی شہرت بہت زیادہ تھی اس لئے یہاں صرف ان تین کا ہی بیان فرمایا ۔ ان مقامات کا یہ لوگ طواف بھی کرتے تھے قربانیوں کے جانور وہاں لے جاتے تھے ان کے نام پر جانور چڑھائے جاتے تھے باوجود اس کے یہ سب لوگ کعبہ کی حرمت و عظمت کے قائل تھے اسے مسجد ابراہیم مانتے تھے اور اس کی خاطر خواہ توقیر کرتے تھے ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ قریش اور بنو کنانہ عزیٰ کے پجاری تھے جو نخلہ میں تھا ۔ اس کا نگہبان اور متولی قبیلہ بنو شیبان تھا جو قبیلہ سلیم کی شاخ تھا اور بنو ہاشم کے ساتھ ان کا بھائی چارہ تھا اس بت کے توڑنے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فتح مکہ کے بعد حضرت خالد بن ولید کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہتے جاتے تھے
یا عزی کفرانک لا سبحانک انی رایت اللہ قد اھانک
اے عزیٰ میں تیرا منکر ہوں تیری پاکی بیان کرنے والا نہیں ہوں میرا ایمان ہے کہ تیری عزت کو اللہ نے خاک میں ملا دیا ۔ یہ ببول کے تین درختوں پر تھا کاٹ ڈالے گئے اور قبہ ڈھا دیا اور واپس آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اطلاع دی آپ نے فرمایا تم نے کچھ نہیں کیا لوٹ کر پھر دوبارہ جاؤ حضرت خالد کے دوبارہ تشریف لے جانے پر وہاں کے محافظ اور خدام نے بڑے بڑے مکرو فریب کئے اور خوب غل مچا مچا کر یا عزیٰ یا عزیٰ کے نعرے لگائے حضرت خالد نے جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک ننگی عورت ہے جس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور اپنے سر پر مٹی ڈال رہی ہے آپ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کیا اور واپس آکر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر دی آپ نے فرمایا عزیٰ یہی تھی ۔ لات قبیلہ ثقیف کا بت تھا جو طائف میں تھا ۔ اس کی تولیت اور مجاورت بنو معتب میں تھی یہاں اس کے ڈھانے کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت مغیرہ بن شعبہ اور حضرت ابو سفیان صخر بن حرب کو بھیجا تھا جنہوں نے اسے معدوم کر کے اس کی جگہ مسجد بنا دی ، مناۃ اوس و خزرج اور اس کے ہم خیال لوگوں کا بت تھا یہ مثلل کی طرف سے سمندر کے کنارے قدید میں تھا یہاں بھی حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابو سفیان کو بھیجا اور آپ نے اس کے ریزے ریزے کر دئیے ۔ بعض کا قول ہے کہ حضرت علی کے ہاتھوں یہ کفرستان فنا ہوا ۔ ذوالخعلہ نامی بت خانہ دوس اور خشعم اور بجیلہ کا تھا اور جو لوگ اس کے ہم وطن تھے یہ تبالہ میں تھا اور اسے یہ لوگ کعبہ یمانیہ کہتے تھے اور مکہ کے کعبہ کو کعبہ شامیہ کہتے تھے یہ حضرت جریر بن عبداللہ کے ہاتھوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے فنا ہوا فلس نامی بت خانہ قبیلہ طے اور ان کے آس پاس کے عربوں کا تھا یہ جبل طے میں سلمیٰ اور اجا کے درمیان تھا اس کے توڑنے پر حضرت علی مامور ہوئے تھے آپ نے اسے توڑ دیا اور یہاں سے دو تلواریں لے گئے تھے ایک رسوب دوسری مخزم آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دونوں تلواریں انہی کو دے دیں ، قبیلہ حمیر اہل یمن نے اپنا بت خانہ صنعاء میں ریام نامی بنا رکھا تھا مذکور ہے کہ اس میں ایک سیاہ کتا تھا اور وہ دو حمیری جو تبع کے ساتھ نکلے تھے انہوں نے اسے نکال کر قتل کر دیا اور اس بت خانہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور رضا نامی بت کدہ بنو ربیعہ بن سعد کا تھا اس کو مستوغر بن ربیعہ بن کعب بن اسد نے اسلام میں ڈھایا ۔ ابن ہشام فرماتے ہیں کہ ان کی عمر تین سو تیس سال کی ہوئی تھی جس کا بیان خود انہوں نے اپنے اشعار میں کیا ہے ذوالکعبات نامی صنم خانہ بکر تغلب اور یاد قبیلے کا سنداد میں تھا پھر فرماتا ہے کہ تمہارے لئے لڑکے ہوں اور اللہ کی لڑکیاں ہوں ؟ کیونکہ مشرکین اپنے زعم باطل میں فرشتوں کو اللہ کی لڑکیاں سمجھتے تھے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم آپس میں تقسیم کرو اور کسی کو صرف لڑکیاں اور کسی کو صرف لڑکے دو تو وہ بھی راضی نہ ہوگا اور یہ تقسیم نامنصفی کی سمجھی جائے گی چہ جائیکہ تم اللہ کے لئے لڑکیاں ثابت کرو اور خود تم اپنے لئے لڑکے پسند کرو پھر فرماتا ہے ان کو تم نے اپنی طرف سے بغیر کسی دلیل کے مضبوط ٹھہرا کر جا چاہا نام گھڑ لیا ہے ورنہ نہ وہ معبود ہیں نہ کسی ایسے پاک نام کے مستحق ہیں خود یہ لوگ بھی ان کی پوجا پاٹ پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے صرف اپنے بڑوں پر حسن ظن رکھ کر جو انہوں نے کیا تھا یہ بھی کر رہے ہیں مکھی پر مکھی مارتے چلے جاتے ہیں مصیبت تو یہ ہے کہ دلیل آجانے اللہ کی باتیں واضح ہو جانے کے باوجود بھی باپ دادا کی غلط راہ کو نہیں چھوڑتے ۔ پھر فرماتا ہے کیا ہر انسان تمنا پر تمہارے لئے کیا لکھا جائے گا ؟ تمام امور کا مالک اللہ تعالیٰ ہے دنیا اور آخرت میں تصرف اسی کا ہے جو اس نے جو چاہا ہو رہا ہے اور جو چاہے گا ہوگا ۔ پھر فرماتا ہے کہ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی بڑے سے بڑا فرشتہ بھی کسی کے لئے سفارش کا لفظ بھی نہیں نکال سکتا ۔ جیسے فرمایا آیت ( مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ) 2- البقرۃ:255) کون ہے جو اس کے پاس اس کی اجازت کے بغیر سفارش پیش کر سکے اس کے فرمان کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش نفع نہیں دے سکتی ۔ جبکہ بڑے بڑے قریبی فرشتوں کا یہ حال ہے تو پھر اے ناوافقو ! تمہارے یہ بت اور تھان کیا نفع پہنچا دیں گے ؟ ان کی پرستش سے اللہ روک رہا ہے تمام رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور کل آسمانی کتابیں اللہ کے سوا اوروں کی عبادت سے روکنا اپنا عظیم الشان مقصد بتاتی ہیں پھر تم ان کو اپنا سفارشی سمجھ رہے ہو کس قدر غلط راہ ہے ۔