وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَرۡیَۃٍۭ بَطِرَتۡ مَعِیۡشَتَہَا ۚ فَتِلۡکَ مَسٰکِنُہُمۡ لَمۡ تُسۡکَنۡ مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ اِلَّا قَلِیۡلًا ؕ وَ کُنَّا نَحۡنُ الۡوٰرِثِیۡنَ ﴿۵۸﴾

(58 - القصص)

Qari:


And how many a city have We destroyed that was insolent in its [way of] living, and those are their dwellings which have not been inhabited after them except briefly. And it is We who were the inheritors.

اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہلاک کر ڈالا جو اپنی (فراخی) معیشت میں اترا رہے تھے۔ سو یہ اُن کے مکانات ہیں جو اُن کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم۔ اور اُن کے پیچھے ہم ہی اُن کے وارث ہوئے

[وَكَمْ: اور کتنی] [اَهْلَكْنَا: ہلاک کردیں ہم نے] [مِنْ قَرْيَةٍ: بستیاں] [بَطِرَتْ: اتراتی] [مَعِيْشَتَهَا: اپنی معیشت] [فَتِلْكَ: سو۔ یہ] [مَسٰكِنُهُمْ: ان کے مسکن] [لَمْ تُسْكَنْ: نہ آباد ہوئے] [مِّنْۢ بَعْدِهِمْ: ان کے بعد] [اِلَّا: مگر] [قَلِيْلًا: قلیل] [وَكُنَّا: اور ہوئے ہم] [نَحْنُ: ہم] [الْوٰرِثِيْنَ: وارث (جمع)]

Tafseer / Commentary

اہل مکہ کو تنبیہہ
اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو اللہ کے بہت سی نعمتیں حاصل کرکے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے اور اللہ سے کفر کرتے تھے نبی کا انکار کرتے تھے اور اللہ کی روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح تباہ وبرباد کردیا کہ آج ان کا نام لینے والا نہیں رہا۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ ١١٢۔) 16- النحل:112) یہاں فرماتا ہے کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی ہیں ۔ کچھ یونہی سی آبادی اگرچہ ہوگئی ہو لیکن دیکھو ان کے کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی انکے مالک رہ گئے ہیں حضرت کعب (تابعی) کا قول ہے کہ الو سے حضرت سلیمان نے دریافت فرمایا کہ تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا اس نے کہا کہ اس لئے کہ اسی کے باعث حضرت آدم جنت سے نکالے گئے پوچھاپانی کیوں نہیں پیتا ؟ کہا اس لئے کہ قوم نوح اسی میں ڈبودی گئی۔ پوچھا ویرانے میں کیوں رہتا ہے؟ کہا اس لیے کہ وہ اللہ کی میراث ہے ۔ پھر حضرت کعب نے آیت (وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ 58؀) 28- القصص:58) پڑھا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے عدل وانصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ وہ کسی کے ظلم سے ہلاک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حجت ختم کرتا ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے۔ رسولوں کو بھیج کر اپناکلام ان تک پہنچاتا ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی نبوت عام تھی آپ ام القریٰ میں مبعوث ہوئے تھے۔ اور تمام عرب وعجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جیسے فرمان ہے آیت (لتنذر ام القریٰ ومن حولھا) تاکہ تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرادے اور فرمایا آیت ( قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا الَّذِيْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ يُـحْيٖ وَيُمِيْتُ ۠ فَاٰمِنُوْا باللّٰهِ وَرَسُوْلِهِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ يُؤْمِنُ باللّٰهِ وَكَلِمٰتِهٖ وَاتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ ١٥٨۔) 7- الاعراف:158) کہہ دے کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں اور آیت میں ہے (لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۢ بَلَغَ 19؀ۘ) 6- الانعام:19) تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرادوں اور ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے۔ اور آیت میں ہے (وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ 17؀) 11-ھود:17) اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے کی جگہ جہنم ہے ۔ اور جگہ اللہ کا فرمان ہے آیت ( وَاِنْ مِّنْ قَرْيَةٍ اِلَّا نَحْنُ مُهْلِكُوْهَا قَبْلَ يَوْمِ الْقِيٰمَةِ اَوْ مُعَذِّبُوْهَا عَذَابًا شَدِيْدًا ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا 58؀) 17- الإسراء:58) یعنی تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہلاک کرنے والے ہیں یا سخت عذاب کرنے والے ہیں ۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ سب بستیوں کو برباد کردے گا۔ اور آیت میں ہے کہ ہم جب تک رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے۔ پاس حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بعثت کو عام کردیا اور تمام جہاں کے لئے کردیا اور مکہ میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ کو مبعوث فرما کر ساری دنیا پر اپنی حجت ختم کردی۔ بخاری ومسلم میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بناکر بھیجا گیا ہوں ۔ اسی لئے نبوت ورسالت کو آپ پر ختم کردیا آپ کے بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول۔ کہا گیا کہ مراد ام القری سے اصل اور بڑا قریہ ہے۔

Select your favorite tafseer