وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ یٰۤاَیُّہَا الۡمَلَاُ مَا عَلِمۡتُ لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرِیۡ ۚ فَاَوۡقِدۡ لِیۡ یٰہَامٰنُ عَلَی الطِّیۡنِ فَاجۡعَلۡ لِّیۡ صَرۡحًا لَّعَلِّیۡۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤی اِلٰہِ مُوۡسٰی ۙ وَ اِنِّیۡ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۳۸﴾

(38 - القصص)

Qari:


And Pharaoh said, "O eminent ones, I have not known you to have a god other than me. Then ignite for me, O Haman, [a fire] upon the clay and make for me a tower that I may look at the God of Moses. And indeed, I do think he is among the liars."

اور فرعون نے کہا کہ اے اہلِ دربار میں تمہارا اپنے سوا کسی کو خدا نہیں جانتا تو ہامان میرے لئے گارے کو آگ لگوا (کر اینٹیں پکوا) دو پھر ایک (اُونچا) محل بنادو تاکہ میں موسٰی کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں اور میں تو اُسے جھوٹا سمجھتا ہوں

[وَقَالَ: اور کہا] [فِرْعَوْنُ: فرعون نے] [يٰٓاَيُّهَا الْمَلَاُ: اے سردارو] [مَا عَلِمْتُ: نہیں جانتا میں] [لَكُمْ: تمہارے لیے] [مِّنْ: کوئی] [اِلٰهٍ: معبود] [غَيْرِيْ: اپنے سوا] [فَاَوْقِدْ لِيْ: پس آگ جلا میرے لیے] [يٰهَامٰنُ: اے ہامان] [عَلَي الطِّيْنِ: مٹی پر] [فَاجْعَلْ لِّيْ: پھر میرے لیے بنا (تیار کر)] [صَرْحًا: ایک بلند محل] [لَّعَلِّيْٓ: تاکہ میں] [اَطَّلِــعُ: میں جھانکوں] [اِلٰٓى: طرف] [اِلٰهِ: معبود] [مُوْسٰي: موسی] [وَاِنِّىْ: اور بیشک میں] [لَاَظُنُّهٗ: البتہ سمجھا ہوں اسے] [مِنَ: سے] [الْكٰذِبِيْنَ: جھوٹے]

Tafseer / Commentary

فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے اپنی قوم کو بےعقل بناکر ان سے اپنا دعویٰ منوالیا اس نے ان کمینوں کو جمع کرکے ہانک لگائی کہ تمہارا رب میں ہی ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے اسی بنا پر اللہ نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑلیا اور دوسروں کے لئے اسے نشان عبرت بنایا۔ ان کمینوں نے اسے اللہ مان کر اس کا دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم اللہ حضرت موسیٰ سے ڈانٹ کر کہا کہ سن اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ کر اپنا دعوی انہیں منواکر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ (بھٹہ) بنا اور اس میں اینٹیں پکوا اور میرے لئے ایک بلند وبالا مینار بنا کہ میں جاکر جھانکوں کہ واقعہ میں موسیٰ علیہ السلام کا کوئی اللہ ہے بھی یا نہیں ۔ گو مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے۔ مگر میں اس کا جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی کا بیان آیت ( وَقَالَ فِرْعَوْنُ يٰهَامٰنُ ابْنِ لِيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ 36؀ۙ) 40- غافر:36) میں بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلند میناربنایا گیا کہ اس سے اونچا دنیا میں نہیں بنایا گیا ۔ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف دعویٰ رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد باری تعالیٰ کا قائل ہی نہ تھا۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے اس نے کہا ومارب العلمین رب العالمین ہے کیا ؟ اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو اللہ جانا تو میں تجھے قید کردونگا ۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا اللہ کوئی اور نہیں ۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد سے گزر گئی۔ اللہ کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہوگئے ۔ قیامت کے حساب کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو بالآخر اللہ کا عذاب ان پر برس پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹادیا۔ سب کو اپنے عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد کر دیا۔ لوگو سوچ لو کہ ظالموں کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم نے انہیں دوزخیوں کا امام بنادیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی طرف بلاتے ہیں جن سے وہ اللہ کے عذابوں میں جلیں ۔ جو بھی ان کی روش پر چلا اسے وہ جہنم میں لئے گئے جس نے بھی رسولوں کو جھٹلایا اور اللہ کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے۔ قیامت کے دن بھی انکی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد نہ پہنچے گی دونوں جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے جسیے فرمان ہے (اَهْلَكْنٰهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ 13؀) 47- محمد:13) ہم نے انہیں تہہ وبالا کردیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے اللہ کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر لعنت ہے جو بھی بھلا آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے ہوں گے جیسے فرمان ہے آیت ( وَاُتْبِعُوْا فِيْ هٰذِهٖ لَعْنَةً وَّيَوْمَ الْقِيٰمَةِ ۭ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ 99؀) 11-ھود:99) یہاں بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت۔

Select your favorite tafseer