وَ اِبۡرٰہِیۡمَ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۱۶﴾

(16 - العنکبوت)

Qari:


And [We sent] Abraham, when he said to his people, "Worship Allah and fear Him. That is best for you, if you should know.

اور ابراہیمؑ کو (یاد کرو) جب اُنہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ خدا کی عبادت کرو اور اس سے ڈرو اگر تم سمجھ رکھتے ہو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے

[وَاِبْرٰهِيْمَ: اور ابراہیم] [اِذْ قَالَ: جب اس نے کہا] [لِقَوْمِهِ: اپنی قوم کو] [اعْبُدُوا: اتم عبادت کرو] [اللّٰهَ: اللہ] [وَاتَّــقُوْهُ: اور اس سے ڈرو] [ذٰلِكُمْ: یہ] [خَيْرٌ لَّكُمْ: بہتر تمہارے لیے] [اِنْ: اگر] [كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ: تم جانتے ہو]

Tafseer / Commentary

ریاکاری سے بچو
امام الموحدین ابو المرسلین خلیل اللہ علیہ الصلوات اللہ کا بیان ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو توحید اللہ کی دعوت دی ریاکاری سے بچنے اور دل میں پرہیزگاری قائم کرنے کا حکم دیا اس کی نعمتوں پر شکرگزاری کرنے کو فرمایا۔ اور اس کا نفع بھی بتایا کہ دنیا اور آخرت کی برائیاں اس سے دور ہوجائیں گی اور دونوں جہان کی نعمتیں اس سے مل جائیں گی۔ ساتھ ہی انہیں بتایا کہ جن بتوں کی تم پرستش کررہے ہو ۔ یہ تو بےضرر اور بےنفع ہے تم نے خود ہی ان کے نام اور ان کے اجسام تراش لئے ہیں ۔ وہ تو تمہاری طرح مخلوق ہیں بلکہ تم سے بھی کمزور ہیں ۔ یہ تمہاری روزیوں کے بھی مختار نہیں ۔ اللہ ہی سے روزیاں طلب کرو ۔ اسی حصہ کے ساتھ آیت (ایاک نعبد وایاک نستعین) بھی ہے کہ ہم سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں ۔ یہی حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دعا میں ہے آیت (رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّــنِيْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهٖ وَنَجِّــنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ 11 ۝ ۙ) 66- التحريم:11) اے اللہ میرے لئے اپنے پاس ہی جنت میں مکان بنا۔ چونکہ اس کے سوا کوئی رزق نہیں دے سکتا اس لئے تم اسی سے روزیاں طلب کرو اور جب اس کی روزیاں کھاؤ تو اس کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرو ۔ اس کی نعمتوں کا شکر بجالاؤ تم میں سے ہر ایک اسی کی طرف لوٹنے والا ہے ۔ وہ ہر عامل کو اسکے عمل کا بدلہ دے گا۔ دیکھو مجھے جھوٹا کہہ کر خوش نہ ہو نظریں ڈالو کہ تم سے پہلے جنہوں نے نبیوں کو جھوٹ کی طرف منسوب کیا تھا ان کی کیسی درگت ہوئی؟ یاد رکھنا نبیوں کا کام صرف پیغام پہنچا دینا ہے ۔ ہدایت عدم ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے۔ اپنے آپ کو سعات مندوں میں بناؤ بدبختوں میں شامل نہ کرو ۔ حضرت قتادہ تو فرماتے ہیں اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مزید تشفی کی گئی ہے اس مطلب کا تقاضا تو یہ ہے کہ پہلاکام ختم ہوا۔ اور یہاں سے لے کر آیت ( فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ 24؀) 29- العنكبوت:24) تک یہ سب عبارت بطور جملہ معترضہ کے ہے ۔ ابن جریر نے تو کھلے لفظوں میں یہی کہا ہے ۔ لیکن الفاظ قرآن سے تو بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کلام حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کا ہے آپ قیامت کے قائم ہونے کی دلیلیں پیش کررہے ہیں کیونکہ اس تمام کلام کے بعد آپ کی قوم کا جواب ذکر ہوا ہے۔

Select your favorite tafseer