Qari: |
Say, "Who rescues you from the darknesses of the land and sea [when] you call upon Him imploring [aloud] and privately, 'If He should save us from this [crisis], we will surely be among the thankful.' "
کہو بھلا تم کو جنگلوں اور دریاؤں کے اندھیروں سے کون مخلصی دیتا ہے (جب) کہ تم اسے عاجزی اور نیاز پنہانی سے پکارتے ہو (اور کہتے ہو) اگر خدا ہم کو اس (تنگی) سے نجات بخشے تو ہم اس کے بہت شکر گزار ہوں
[قُلْ: آپ کہدیں] [مَنْ: کون] [يُّنَجِّيْكُمْ: بچاتا ہے تمہیں] [مِّنْ: سے] [ظُلُمٰتِ: اندھیرے] [الْبَرِّ: خشکی] [وَالْبَحْرِ: اور دریا] [تَدْعُوْنَهٗ: تم پکارتے ہو اس کو] [تَضَرُّعًا: گڑگڑا کر] [وَّخُفْيَةً: اور چپکے سے] [لَىِٕنْ: کہ اگر] [اَنْجٰىنَا: بچا لے ہمیں] [مِنْ: سے] [هٰذِهٖ: اس] [لَنَكُوْنَنَّ: تو ہم ہوں] [مِنَ: سے] [الشّٰكِرِيْنَ: شکر ادا کرنے والے]
احسان فراموش نہ بنو
اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرماتا ہے کہ جب تم خشکی کے بیابانوں اور لق و دق سنسان جنگلوں میں راہ بھٹکے ہوئے قدم قدم پر خوف و خطر میں مبتلا ہوتے ہو اور جب تم کشتیوں میں بیٹھے ہوئے طوفان کے وقت سمندر کے تلاطم میں مایوس و عاجز ہو جاتے ہو ۔ اس وقت اپنے دیوتاؤں اور بتوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے ہو ۔ یہی مضمون قرآن کریم کی آیت (وَاِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِيَّاهُ) 17۔ الاسراء:67) میں اور آیت (ھُوَ الَّذِيْ يُسَيِّرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ) 10۔ یونس:22) میں اور آیت (اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ۭ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ ۭ تَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ) 27۔ النمل:63) میں بھی بیان ہوا ہے ۔ تصرعا و خفیتہ کے معنی جھرا او سرا یعنی بلند آواز اور پست آواز کے ہیں ۔ الغرض اس وقت صرف اللہ کو ہی پکارتے ہیں اور وعدہ کرتے ہیں کہ اگر تو ہمیں اس وقت سے نجات دے گا تو ہم ہمیشہ تیرے شکر گزار رہیں گے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے باوجود اس عہد و پیمان کے ادھر ہم نے انہیں تنگی اور مصیبت سے چھوڑا اور ادھر یہ آزاد ہوتے ہی ہمارے ساتھ شرک کرنے لگے اور اپنے جھوٹے معبودوں کو پھر پکارنے لگے ، پھر فرماتا ہے کیا تم نہیں جانتے کہ جس اللہ نے تمہیں اس وقت آفت میں ڈالا تھا وہ اب بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی اور عذاب اوپر سے یا نیجے سے لے آئے جیسے کہ سورۃ سبحان میں آیت (رَبُّكُمُ الَّذِيْ يُزْجِيْ لَكُمُ الْفُلْكَ فِي الْبَحْرِ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ ۭ اِنَّهٗ كَانَ بِكُمْ رَحِـيْمًا) 17۔ الاسراء:66) تک بیان فرمایا ۔ یعنی تمہارا پروردگار وہ ہے جو دریا میں تمہارے لئے کشتیاں چلاتا ہے تاکہ تم اس کا فضل حاصل کرو اور وہ تم پر بہت ہی مہربان ہے ۔ لیکن جب تمہیں دریا میں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو جن کی تم عبادت کرتے رہتے تھے وہ سب تمہارے خیال سے نکل جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی کی طرف لو لگ جاتی ہے ، پھر جب وہ تمہیں خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اس سے منہ پھیر لیتے ہو فی الواقع انسان بڑا ہی ناشکرا ہے کیا تم اس سے بےخوف ہو کہ وہ تمہیں خشکی میں ہی دھنسا دے یا تم پر آندھی کا عذاب بھیج دے پھر تم کسی کو بھی اپنا کار ساز نہ پاؤ ۔ کیا تم اس بات سے بھی نڈر ہو کہ وہ تمہیں پھر دوبارہ دریا میں لے جائے اور تم پر تندو تیز ہوا بھیج دے اور تمہیں تمہارے کفر کے باعث غرق کر دے تو پھر کسی کو نہ پاؤ جو ہمارا پیچھا کر سکے ۔ حضرت حسن فرماتے ہیں اوپر نیچے کے عذاب مشرکوں کیلئے ہیں حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس آیت میں اسی امت کو ڈریا گیا تھا لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے معافی دے دی ۔ ہم یہاں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں اور آثار بیان کرتے ہیں ملاحظہ ہوں ۔ اللہ تعالیٰ پر ہمارا بھروسہ ہے اور اس سے ہم مدد چاہتے ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے یلبسکم کے معنی یخلطکم کے ہیں یہ لفظ التباس سے ماخوذ ہے شیعا کے معنی فرقا کے ہیں ۔ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ اللہ قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعا کی کہ یا اللہ میں تیرے پر عظمت و جلال چہرہ کی پناہ میں آتا ہوں اور جب یہ سنا کہ نیچے سے عذاب لے آئے تو بھی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ دعا کی ۔ پھر یہ سن کر کہ یا وہ تم میں اختلاف ڈال دے اور تمہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے تو حضور نے فرمایا یہ بہت زیادہ ہلکا ہے ، ابن مردویہ کی اس حدیث کے آخر میں حضرت جابر کا یہ فرمان بھی مروی ہے کہ اگر اس آپ کی ناچاقی سے بھی پناہ مانگتے تو پناہ مل جاتی ۔ مسند میں ہے حضور سے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ تو ہونے والا ہی ہے اب تک یہ ہوا نہیں ۔ یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے اور امام ترمذی اسے غریب بتاتے ہیں، مسند احمد میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ آ رہے تھے آپ مسجد بنی معاویہ میں گئے اور دور رکعت نماز ادا کی ہم نے بھی آپ کے ساتھ پڑھی پھر آپ نے لمبی مناجات کی اور فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں طلب کیں ایک تو یہ کہ میری تمام امت کو ڈبوئے نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ چیز عطا فرمائی ، پھر میں نے دعا کی کہ میرے عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی ۔ پھر میں نے دعا کی کہ میری عام امت کو قحط سالی سے اللہ تعالیٰ ہلاک نہ کرے اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا بھی قبول فرمائی پھر میں نے دعا کی کہ ان میں آپس میں پھوٹ نہ پڑے میری یہ دعا قبول نہ ہوئی ۔ صحیح مسلم وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عبداللہ بن عبداللہ فرماتے ہیں ہمارے پاس عبداللہ بن عمر بنی معاویہ کے محلے میں آئے اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ جانتے ہو تمہاری اس مسجد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نماز کس جگہ پڑھی ؟ میں نے مسجد کے ایک کونے کو دکھا کر کہا یہاں پھر پوچھا جانتے ہو یہاں تین دعائیں حضور نے کیا کیا کیں؟ میں نے کہا ایک تو یہ کہ آپ کی امت پر کوئی غیر مسلم طاقت اس طرح غالب نہ آ جائے کہ ان کو پیس ڈالے دوسرے یہ کہ ان پر عام قحط سالی ایسی نہ آئے کہ یہ سب تباہ ہو جائیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ کی یہ دونوں دعائیں قبول فرمائیں پھر تیسری دعا یہ کی کہ ان میں آپس میں لڑائیاں نہ ہوں لیکن یہ دعا قبول نہ ہوئی یہ سن کر حضرت عبداللہ نے فرمایا تم نے سچ کہا یاد رکھو قیامت تک یہ آپس کی لڑائیاں چلی جائیں گی ، ابن مردویہ میں ہے کہ حضور علیہ السلام بنو معاویہ کے محلے میں گئے اور وہاں آٹھ رکعت نماز ادا کی ، بڑی لمبی رکعت پڑھیں پھر میری طرف توجہ فرما کر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں اللہ پاک نے دو تو دیں اور ایک نہ دی ، میں نے سوال کیا کہ میری امت پر ان کے دشمن اس طرح نہ چھا جائیں کہ انہیں برباد کر دیں اور ان سب کو ڈبو یا نہ جائے ، اللہ نے ان دونوں باتوں سے مجھے امن دیا پھر میں نے آپ سے لڑائیاں نہ ہونے کی دعا کی لیکن اس سے مجھے منع کر دیا ، ابن ماجہ اور مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل (رض) فرماتے ہیں میں رسول مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آیا تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ تشریف لے گئے اب دریافت کرتا کرتا حضور جہاں تھے وہیں پہنچا دیکھا تو آپ نماز پڑھ رہے ہیں میں بھی آپ کے پیچھے نماز میں کھڑا ہو گیا ، آپ نے بڑی لمبی نماز پڑھی، جب فارغ ہوئے تو میں کہا حضور بڑی لمبی نماز تھی پھر آپ نے اپنی تینوں دعاؤں کا ذکر کیا ، نسائی وغیرہ میں حضرت انس سے مروی ہے کہ ایک سفر میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صبح کی نماز کی آٹھ ٩ رکعت پڑھیں اور حضرت انس کے سوال پر اپنی دعاؤں کا ذکر کیا اس میں عام قحط سالی کا ذکر ہے ، نسائی وعیرہ میں ہے کہ حضور نے ایک مرتبہ ساری رات نماز میں گزار دی صبح کے وقت سلام پھیرا تو حضرت خباب بن ارث (رض) نے جو بدری صحابی ہیں پوچھا کہ ایسی طویل نماز میں تو میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا آپ نے اس کے جواب میں وہی فرمایا جو اوپر مذکور ہوا ، اس میں ایک دعا یہ ہے کہ اگلی امتوں پر جو عام عذاب آئے وہ میری امت پر عام طور پر نہ آئیں ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضور نے نماز پڑھی جس کے رکوع سجود پورے تھے اور نماز ہلکی تھی پھر سوال و جواب وہی ہیں جو اوپر بیان ہوئے مسند احمد میں ہے رسول اکرام (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں میرے لئے زمین لپیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے مشرقین مغربین دیکھ لئے جہاں جہاں تک یہ زمین میری لئے لپیٹ دی گئی تھی وہاں وہاں تک میری امت کی بادشاہت پہنچے گی ، مجھے دونوں خزانے دیئے گئے ہیں سفید اور سرخ، میں نے اپنے رب عزوجل سے سوال کیا کہ میری امت کو عام قحط سالی سے ہلاک نہ کر اور ان پر کوئی ان کے سوا ایسا دشمن مسلط نہ کر جو انہیں عام طور پر ہلاک کر دے یہاں تک کہ یہ خود آپس میں ایک دوسروں کو ہلاک کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قتل کرنے لگیں اور ایک دوسروں کو قید کرنے لگیں اور حضور نے فرمایا میں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتا بجز گمراہ کرنے والے اماموں کے پھر جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی ، ابن مردویہ میں ہے کہ جب آپ لوگوں میں نماز پڑھتے تو نماز ہلکی ہوتی ، رکوع و سجود پورے ہوتے ایک روز آپ بہت دیر تک بیٹھے رہے یہاں تک کہ ہم نے ایک دوسرے کو اشارے سے سمجھا دیا کہ شاید آپ پر وحی اتر رہی ہے کاموشی سے بیٹھے رہو ۔ جب آپ فارغ ہوئے تو بعض لوگوں نے کہا حضور آج تو اس قدر زیادہ دیر تک آپ کے بیٹھے رہنے سے ہم نے یہ خیال کیا تھا اور آپس میں ایک دوسرے کو اشارے سے یہ سمجھایا تھا کہ آپ نے فرمایا نہیں یہ بات تو نہ تھی بلکہ میں نے یہ نماز بڑی رغبت و یکسوئی سے ادا کی تھی ، میں نے اس میں تین چیزیں اللہ تبارک و تعالیٰ سے طلب کی تھیں جن میں سے دو تو اللہ تعالیٰ نے دے دیں اور ایک نہیں دی۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ وہ تمہیں وہ عذاب نہ کرے جو تم سے پہلی قوموں کو کئے ہیں ، اللہ تعالیٰ نے اسے پورا کیا میں نے پھر کہا کہ یا اللہ میری امت پر کوئی ایسا دشمن چھا نہ جائے جو ان کا صفایا کر دے تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ مراد بھی پوری کر دی ، پھر میں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ تم میں پھوٹ نہ ڈالے کہ ایک دوسرے کو ایذاء پہنچائیں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول نہ فرمائی ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے چار دعائیں کیں تو تین پوری ہوئیں اور ایک رد ہو گئی ۔ چوتھی دعا اس میں یہ ہے کہ میری امت گمراہی پر جمع نہ ہو جائے اور حدیث میں ہے دو چیزیں اللہ نے دیں دو نہ دیں آسمان سے پتھروں کا سب پر برسانا موقوف کر دیا گیا زمین کے پانی کے طوفان سے سب کا غرق ہو جانا موقوف کر دیا گیا لیکن قتل اور آپس کی لڑائی موقوف نہیں کی گئی (ابن مردویہ) ابن عباس فرماتے ہیں جب یہ آیت اتری تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) وضو کر کے اٹھ کھرے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری امت پر نہ تو ان کے اوپر سے عذاب اتار نہ نیچے سے انہیں عذاب چکھا اور نہ ان میں تفرقہ ڈال کر ایک دوسرے کی مصیبت پہنچا، اسی وقت حضرت جبرائیل علیہ السلام اترے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کو اس سے پناہ دے دی کہ ان کے اوپر سے یا ان کے نیچے سے ان پر عام عذاب اتارا جائے (ابن مردویہ ابن ابی کعب سے مروی ہے کہ دو چیزیں اس امت سے ہٹ گئیں اور دور رہ گئیں اوپر کا عذاب یعنی پتھراؤ اور نیچے کا عذاب یعنی زمین کا دھنساؤ ہٹ گیا اور آپس کی پھوٹ اور ایک کا ایک کو ایذائیں پہنچانا رہ گیا ، آپ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں چار چیزوں کا ذکر ہے جن میں سے دو تو حضور کی وفات کے پجیس سال بعد ہی شروع ہو گئیں یعنی پھوٹ اور آپس کی دشمنی ۔ دو باقی رہ گئیں وہ بھی ضرور ہی آنے والی ہیں یعنی رجم اور خسف آسمان سے سنگباری اور زمین میں دھنسایا جانا (احمد ) حضرت حسن اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں گناہ سے لوگ بچے ہوئے تھے عذاب رکے ہوئے تھے جب گناہ شروع ہوئے عذاب اتر پڑے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) با آواز بلند مجلس میں یا منبر پر فرماتے تھے لوگو تم پر آیت (قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓي اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّيُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ) 6۔ الانعام:65) اتر چکی ہے اگر آسمانی عذاب آ جائے ایک بھی باقی نہ بچے اگر تمہیں وہ زمین میں دھنسا دے تو تم سب ہلاک ہو جاؤ اور تم میں سے ایک بھی نہ بچے لیکن تم پر آپس کی پھوٹ کا تیسرا عذاب آ چکا ہے ، ابن عباس سے مروی ہے کہ اوپر کا عذاب برے امام اور بد بادشاہ ہیں نیچے کا عذاب بد باطن غلام اور بد دیانت نو کر چاکر ہیں یہ قول بھی گو صحیح ہو سکتا ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر اور قوی ہے ، اس کی شہادت میں آیت (ءَاَمِنْتُمْ مَّنْ فِي السَّمَاۗءِ اَنْ يَّخْسِفَ بِكُمُ الْاَرْضَ فَاِذَا هِيَ تَمُوْرُ) 67۔ الملک:16) پیش ہو سکتی ہے ، ایک حدیث میں ہے میری امت میں سنگ باری اور زمین میں دھنس جانا اور صورت بدل جانا ہو گا، اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جو قیامت کے قرب کی علامتوں کے بیان میں اس کے موقعہ پر جابجا آئیں گی ۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ آپس کی پھوٹ سے مراد فرقہ بندی ہے ، خواہشوں کو پیشوا بنانا ہے ، ایک حدیث میں ہے یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنمی ہوں گے سوائے ایک کے ، ایک دوسرے کی تکلیف کا مزہ چکھے اس سے مراد سزا اور قتل ہے ، دیکھ لے کہ ہم کس طرح اپنی آیتیں وضاحت کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں ۔ تاکہ لوگ غورو تدبر کریں سوچیں سمجھیں ۔ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا لوگو! میرے بعد کافر بن کر نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسروں کی گردنوں پر تلواریں چلانے لگو، اس پر لوگوں نے کہا حضور کیا ہم اللہ کی واحدانیت اور آپ کی رسالت کو مانتے ہوئے ایسا کر سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ہاں یہی ہوگا ۔ کسی نے کہا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم مسلمان رہتے ہوئے مسلمانوں ہی کو قتل کریں اس پر آیت کا آخری حصہ اور اس کے بعد کی آیت (وکذب بہ) الخ، اتری ( ابن ابی حاتم اور ابن جریر)