Qari: |
O you who have believed, do not take the disbelievers as allies instead of the believers. Do you wish to give Allah against yourselves a clear case?
اے اہل ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر خدا کا صریح الزام لو؟
[يٰٓاَيُّھَا: اے] [ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)] [لَا تَتَّخِذُوا: نہ پکڑو (نہ بناؤ)] [الْكٰفِرِيْنَ: کافر (جمع] [اَوْلِيَاۗءَ: دوست] [مِنْ دُوْنِ: سوائے] [الْمُؤْمِنِيْنَ: مسلمان (جمع)] [اَتُرِيْدُوْنَ: کیا تم چاہتے ہو] [اَنْ تَجْعَلُوْا: کہ تم کرو (لو)] [لِلّٰهِ: اللہ کا] [عَلَيْكُمْ: تم پر (اپنے اوپر)] [سُلْطٰنًا: الزام] [مُّبِيْنًا: صریح]
کافر سے دوستی آگ سے دوستی کے مترادف ہے
کافروں سے دوستیاں کرنے سے ان سے دلی محبت رکھنے سے ان کے ساتھ ہر وقت اٹھنے بیٹھنے سے مسلمانوں کے بھید ان کو دینے سے اور پوشیدہ تعلقات ان سے قائم رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایمانداروں کو روک رہا ہے جیسے اور آیت میں ہے(لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَاۗءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِيْ شَيْءٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰىةً ۭ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗ ۭ وَاِلَى اللّٰهِ الْمَصِيْرُ) 3۔آل عمران:28) مومنوں کو چاہئے کہ بجز مومنوں کے کفار سے دوستی نہ کریں ایسا کرنے والا اللہ کے ہاں کسی بھلائی کا مستحق نہیں ہاں اگر صرف بچاؤ کے طور پر ظاہر داری ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے یعنی اگر تم اس کی نافرمانیاں کرو گے تو تمہیں اس کے عذابوں کو یاد رکھنا چاہئے، ابن ابی حاتم میں حضرت عبداللہ بن عباس کا فرمان مروی ہے کہ آپ نے فرمایا قرآن میں جہاں کہیں ایسی عبارتوں میں سلطان کا لفظ ہے وہاں اس سے مراد حجت ہے یعنی تم نے اگر مومنوں کو چھوڑ کر کفار سے دلی دوستی کے تعلقات پیدا کئے تو تمہارا یہ فعل کافی ثبوت ہو گا اور پوری دلیل ہو گی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں سزا دے ، کئی ایک سلف مفسرین رحمۃ اللہ علیہم اجمعین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ پھر منافقوں کا انجام بیان فرماتا ہے کہ یہ اپنے اس سخت کفر کی وجہ سے جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں داخل کئے جائیں گے درک درجہ کے مقابل کا مظہر ہے بہشت میں درجے ہیں ایک سے ایک بلند اور دوزخ میں درک ہیں ایک سے ایک پست۔ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں انہیں آگ کے صندوقوں میں بند کر کے جہنم میں ڈالا جائے گا اور یہ جلتے بھنتے رہیں گے، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں یہ صندوق لوہے کے ہوں گے جو آگ لگتے ہی آگ کے ہو جائیں گے اور چاروں طرف سے بالکل بند ہوں گے اور کوئی نہ ہو گا جو ان کی کسی طرح کی مدد کرے۔ جہنم سے نکال سکے یا عذابوں میں ہی کچھ کم کروا سکے۔ ہاں ان میں سے جو توبہ کرلیں نادم ہو جائیں اور سچے دل سے منافقت چھوڑ دیں اور رب سے اپنے اس گناہ کی معافی چاہیں۔ پھر اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کریں صرف خوشنودی اللہ اور مرضی مولی کے لئے نیک اعمال پر کمر کس لیں۔ ریا کاری کو اخلاص سے بدل دیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کو مضبوطی سے تھام لیں تو بیشک اللہ ان کی توبہ قبول فرمائے گا اور انہیں سچے مومنوں میں داخل کر دے گا اور بڑے ثواب اور اعلیٰ اجر عنایت فرمائے گا، ابن ابی حاتم میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اپنے دین کو خالص کر لو تو تھوڑا عمل بھی تمہیں کافی ہو جائے گا، پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ غنی ہے بےنیاز ہے بندوں کو سزا کرنی وہ نہیں چاہتا ، ہاں جب گناہوں پر دلیر ہو جائیں تو گوش مالی ضروری ہے ، پس فرمایا اگر تم اپنے اعمال کو سنوار لو اور اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لے آؤ تو کوئی وجہ نہیں جو اللہ تمہیں عذاب دے۔ وہ تو چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی بھی قدر دانی کرنے الا ہے، جو اس کا شکر کرے وہ اس کی عزت افزائی کرتا ہے وہ پورے اور صحیح علم والا ہے۔ جانتا ہے کہ کس کا عمل اخلاص والا اور قبولیت اور قدر کے لائق ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس دل میں قوی ایمان ہے اور کونسا دل ایمان سے خالی ہے، جو اخلاص اور ایمان والے ہیں انہیں بھر پور اور کامل بدلے اللہ تعالیٰ عنایت فرمائے گا (اللہ ہمیں ایمان و اخلاص کی دولت سے مالا مال کرے اور پھر اجر و ثواب سے نہال کرے آمین)
الحمد اللہ! تفسیر محمدی ابن کثیر کا پانچواں پارہ ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اپنے کلام کے سمجھنے سمجھانے کی اور اس پر عالم بن جانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین! الہ تو اس پاک تفسیر کو میرے ہاتھوں ختم کرا اور پوری کتاب چھپی ہوئی مجھے دکھا۔ میرے نامہ اعمال سے گناہوں کو مٹا کر نیکیاں تحریر فرما اور اپنے نیک بندوں میں شمار کر، آمین!!