یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوۡا عَدُوِّیۡ وَ عَدُوَّکُمۡ اَوۡلِیَآءَ تُلۡقُوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ وَ قَدۡ کَفَرُوۡا بِمَا جَآءَکُمۡ مِّنَ الۡحَقِّ ۚ یُخۡرِجُوۡنَ الرَّسُوۡلَ وَ اِیَّاکُمۡ اَنۡ تُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ رَبِّکُمۡ ؕ اِنۡ کُنۡتُمۡ خَرَجۡتُمۡ جِہَادًا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِیۡ ٭ۖ تُسِرُّوۡنَ اِلَیۡہِمۡ بِالۡمَوَدَّۃِ ٭ۖ وَ اَنَا اَعۡلَمُ بِمَاۤ اَخۡفَیۡتُمۡ وَ مَاۤ اَعۡلَنۡتُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡہُ مِنۡکُمۡ فَقَدۡ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۱﴾

(1 - الممتحنۃ)

Qari:


O you who have believed, do not take My enemies and your enemies as allies, extending to them affection while they have disbelieved in what came to you of the truth, having driven out the Prophet and yourselves [only] because you believe in Allah, your Lord. If you have come out for jihad in My cause and seeking means to My approval, [take them not as friends]. You confide to them affection, but I am most knowing of what you have concealed and what you have declared. And whoever does it among you has certainly strayed from the soundness of the way.

مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لئے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق سے جو تمہارے پاس آیا ہے منکر ہیں۔ اور اس باعث سے کہ تم اپنے پروردگار خدا تعالیٰ پر ایمان لائے ہو پیغمبر کو اور تم کو جلاوطن کرتے ہیں۔ تم ان کی طرف پوشیدہ پوشیدہ دوستی کے پیغام بھیجتے ہو۔ اور جو کچھ تم مخفی طور پر اور جو علیٰ الاعلان کرتے ہو وہ مجھے معلوم ہے۔ اور جو کوئی تم میں سے ایسا کرے گا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا

[يٰٓاَيُّهَا : اے] [الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو] [لَا تَتَّخِذُوْا : تم نہ بناؤ] [عَدُوِّيْ : میرا دشمن] [وَعَدُوَّكُمْ : اور اپنے دشمن] [اَوْلِيَاۗءَ : دوست] [تُلْقُوْنَ : تم پیغام بھیجتے ہو] [اِلَيْهِمْ : ان کی طرف] [بِالْمَوَدَّةِ : دوستی سے، کا] [وَقَدْ كَفَرُوْا : اور وہ منکر ہوچکے ہیں] [بِمَا : ا س کے جو] [جَاۗءَكُمْ : تمہارے پاس آیا] [مِّنَ الْحَقِّ ۚ : حق سے] [يُخْرِجُوْنَ : وہ نکالتے (جلاوطن کرتے) ہیں] [الرَّسُوْلَ : رسول] [وَاِيَّاكُمْ : اور تمہیں بھی] [اَنْ تُؤْمِنُوْا : کہ تم ایمان لاتے ہو] [بِاللّٰهِ : اللہ پر] [رَبِّكُمْ ۭ : تمہارا رب] [اِنْ : اگر] [كُنْتُمْ خَرَجْتُمْ : تم نکلتے ہو] [جِهَادًا : جہاد کیلئے] [فِيْ سَبِيْلِيْ : میرے راستے میں] [وَابْتِغَاۗءَ : اور چاہنے کے لئے] [مَرْضَاتِيْ ڰ : میری رضا] [تُسِرُّوْنَ : تم چھپا کر (بھیجتے ہو)] [اِلَيْهِمْ : ان کی طرف] [بِالْمَوَدَّةِ ڰ : دوستی (کا پیغام)] [وَاَنَا : اور میں] [اَعْلَمُ : خوب جانتا ہوں] [بِمَآ : وہ جو] [اَخْفَيْتُمْ : تم چھپاتے ہو] [وَمَآ : اور جو] [اَعْلَنْتُمْ ۭ : تم ظاہر کرتے ہو] [وَمَنْ يَّفْعَلْهُ : اور جو یہ کرے گا] [مِنْكُمْ : تم میں سے] [فَقَدْ ضَلَّ : تو تحقیق وہ بھٹک گیا] [سَوَاۗءَ : سیدھا ] [السَّبِيْلِ: راستہ]

Tafseer / Commentary


حضرت حاطب بن ابوبلتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اس سورت کی شروع کی آیتیں نازل ہوئی ہیں، واقعہ یہ ہوا کہ حضرت حاطب مہاجرین میں سے تھے بدر کی لڑائی میں بھی آپ نے مسلمانوں کے لشکر میں شرکت کی تھی ان کے بال بچے اور مال و دولت مکہ میں ہی تھا اور یہ خود قریش سے نہ تھے صرف حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حلیف تھے اس وجہ سے مکہ میں انہیں امن حاصل تھا، اب یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ شریف میں تھے یہاں تک کہ جب اہل مکہ نے عہد توڑ دیا اور رسول اللہ ﷺ نے ان پر چڑھائی کرنا چاہی تو آپ کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اچانک دبوچ لیں تاکہ خونریزی نہ ہونے پائے اور مکہ شریف پر قبضہ ہو جائے اسی لئے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کی کہ باری تعالیٰ ہماری تیاری کی خبریں ہمارے پہنچنے تک اہل مکہ کو پہنچیں ادھر آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا حضرت حاطبؓ نے اس موقعہ پر ایک خط اہل مکہ کے نام لکھا اور ایک قریشیہ عورت کے ہاتھ اسے چلتا کیا جس میں رسول اللہ ﷺ کے اس ارادے اور مسلمانوں کی لشکر کشی کی خبر درج تھی، آپ کا ارادہ اس سے صرف یہ تھا کہ میرا کوئی احسان قریش پر رہ جائے جس کے باعث میرے بال بچے اور مال دولت محفوظ رہیں، چونکہ حضورؐ کی دعا قبول ہو چکی تھی ناممکن تھا کہ قریشیوں کو کسی ذریعہ سے بھی اس ارادے کا علم ہو جائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو اس پوشیدہ راز سے مطلع فرما دیا اور آپ نے اس عورت کے پیچھے اپنے سوار بھیجے راستہ میں اسے روکا گیا اور خط اس سے حاصل کر لیا گیا، یہ مفصل واقعہ صحیح احادیث میں پوری طرح آ چکا ہے، مسند احمد میں ہے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں مجھے، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرتمقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلوا کر فرمایا تم یہاں سے فوراً کوچ کرو روضہ خاخ میں جب تم پہنچو گے تو تمہیں ایک سانڈنی سوار عورت ملے گی جس کے پاس ایک خط ہے تم اسے قبضہ میں کر کے یاں لے آؤ، ہم تینوں گھوڑوں پر سوار ہو کر بہت تیز رفتاری سے روانہ ہو گئے روضہ خاخ میں جب پہنچے تو فی الواقع ہمیں ایک سانڈنی سوار عورت دکھائی دی ہم نے اس سے کہا کہ جو خط تیرے پاس ہے وہ ہمارے حوالے کر، اس نے صاف انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا غلط کہتی ہے تیرے پاس یقیناًخط ہے اگر تو راضی خوشی نہ دے گی تو ہم جامہ تلاشی کر کے جبراً وہ خط تجھ سے چھینیں گے، اب تو وہ عورت سٹ پٹائی اور آخر اس نے اپنی چٹیا کھول کر اس میں سے وہ پرچہ نکال کر ہمارے حوالے کیا ہم اسی وقت وہاں سے واپس روانہ ہوئے اور حضور ﷺ کی خدمت میں اسے پیش کر دیا، پڑھنے پر معلوم ہوا کہ حضرت حاطبؓ نے اسے لکھا ہے اور یہاں کی خبر رسانی کی ہے۔ حضورؐ کے ارادوں سے کفار مکہ کو آگاہ کیا ہے، آپ نے کہا حاطب یہ کیا حرکت ہے؟ حضرت حاطبؓ نے فرمایا رسول اللہؐ جلدی نہ کیجئے میری بھی سن لیجئے، میں قریشویں میں ملا ہوا تھا خود قریشیوں میں سے نہ تھا پر آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھ ہجرت کی جتنے اور مہاجرین ہیں ان سب کے قرابت دار مکہ میں موجود ہیں جو ان کے بال بچے وغیرہ مکہ میں رہ گئے ہیں وہ ان کی حمایت کرتے ہیں لیکن میرا کوئی رشتہ دار نہیں جو میرے بچوں کی حفاظت کرے اس لئے میں نے چاہا کہ قریشیوں کے ساتھ کوئی سلوک و احسان کروں جس سے میرے بچوں کی حفاظت وہ کریں اور جس طرح اوروں کے نسب کی وجہ سے ان کا تعلق ہے میرے احسان کی وجہ سے میرا تعلق ہو جائے۔ یا رسول اللہؐ میں نے کوئی کفر نہیں کیا نہ اپنے دین سے مرتد ہوا ہوں نہ اسلام کے بعد کفر سے راضی ہوا ہوں بس اس خط کی وجہ سے صرف اپنے بچوں کی حفاظت کا حیلہ تھا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگو تم سے جو واقعہ حاطب بیان کرتے ہیں وہ بالکل حرف بہ حرف سچا ہے کہ اپنے نفع کی خاطر ایک غلطی کر بیٹھے ہیں ن کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا یا کفار کی مدد کرنا ان کے پیش نظر ہو، حضرت فاروق اعظمؓ اس موقعہ پر موجود تھے اور یہ واقعات آپ کے سامنے ہوئےآپ کو بہت غصہ آیا اور فرمانے لگے یا رسول اللہؐ مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں آپ نے فرمایا تمہیں کیا معلوم نہیں؟ کہ یہ بدری صحابی ہیں اور بدر والوں پر اللہ تعالیٰ نے جھانکا اور فرمایا جو چاہو عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا، یہ روایت اور بھی بہت سی حدیث کی کتابوں میں ہے، صحیح بخاری شریفک تاب المغازی میں اتنا اور بھی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری اور کتاب التفسیر میں ہے کہ حضرت عمروؓ نے فرمایا اسی بارے میں آیت (ترجمہ) الخ، اتری لیکن راوی کو شک ہے کہ آیت کے اترنے کا بیان حضرت عمروؓ کا ہے یا حدیث میں ہے، امام علی بن مدینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت سفیانؒ سے پوچھا گیا کہ یہ آیت اسی میں اتری ہے؟ تو سفیان نے فرمایا یہ لوگوں کی بات میں ہے میں نے اسے عمروؓ سے حفظ کیا ہے اور ایک حرف بھی نہیں چھوڑا اور میرا خیال ہے کہ میرے سوا کسی اور نے اسے حفظ بھی نہیں رکھا، بخاری مسلم کی ایک روایت میں حضرت مقدادؓ کے نام کے بدلے حضرت ابومرتدؓ کا نام ہے اس میں یہ بھی ہے کہ حضورؐ نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ اس عورت کے پاس حضرت حاطبؓ کا خطہ ہے، اس عورت کی سواری کو بٹھا کر اس کے انکار پر ہر چند ٹٹولا گیا لیکن کوئی پرچہ ہاتھ نہ لگا آخر جب ہم عاجز آ گئے اور کہیں سے پرچہ نہ ملا تو ہم نے اس عرت سے کہا کہ اس میں تو مطلق شک نہیں کہ تیرے پاس پرچہ ہے گو ہمیں نہیں ملتا لیکن تیرے پاس ہے ضرور، یہ ناممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہو اب اگر تو نہیں دیتی تو ہم تیرے کپڑے اتار کر ٹٹولیں گے، جب اس نے دیکھ لیا کہ انہیں پتہ یقین ہے اور یہ لئے بغیر نہ ٹلیں گے تو اس نے اپنا سر کھول کر اپنے بالوں میں سے پرچہ نکال کر ہمیں دے دیا ہم اسے لے کر واپس خدمت نبویؐ میں اضر ہوئے، حضرت عمرؓ نے یہ واقعہ سن کر فرمایا اس نے اللہ، اس کے رسولؐ کی اور مسلمانوں کی خیانت کی مجھے اس کی گردن مارنے کی اجازت دیجئے، حضورؐ نے حضرت حاطبؓ سے دریافت کیا اور انہوں نے وہ جواب دیا جو اوپر گذر چکا آپ نے سب سے فرما دیا کہ انہیں کچھ نہ کہو اور حضرت عمرؓ سے بھی وہ فرمایا جو پہلے بیان ہوا کہ بدری صحابہ میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنت واجب کر دی ہے جسے سن کر حضرت عمرؓ رو دیئے اور فرمانے لگے اللہ کو اور اس کے رسولؐ کو ہی کامل علم ہے، یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح بخاری کتاب المغازی میں غزوہ بدر کے ذکر میں ہے اور روایت میں ہے کہ حضورؐ نے اپنے مکہ جانے کا ارادہ اپنے چند ہم راز صحابہ کبارؓ کے سامنے تو ظاہر کیا تھا جن میں حضرت حاطبؓ بھی تھے باقی عام طور پر مشہور تھا کہ خیبر جا رہے ہیں، اس روایت میں یہ بھی ہے کہ جب ہم خط کو سارے سامان میں ٹٹول چکے اور نہ ملا تو حضرت ابو مرتدؓ نے کہا شاید اس کے پاس کوئی پرچہ ہی نہیں اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا ناممکن ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بول سکتے ہیں نہ ہم نے جھوٹ کہا، جب ہم نے اسے دھمکایا تو اس نے ہم سے کہا تمہیں اللہ ا خوف نہیں؟ کیا تم مسلمان نہیں؟ ایک روایت میں ہے کہ اس نے پرچہ اپنے جسم میں سے نکالا۔ حضرت عمرؓ کے فرمان میں یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا یہ بدر میں موجود تو ضرور تھے لیکن عہد شکنی کی اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اور دشمنوں میں ہماری خبر رسانی کی اور روایت میں ہے کہ یہ عورت قبیلہ مزینہ کی عورت تھی، بعض کہتے ہیں اس کا نام سارہ تھا اولاد عبدالمطلب کی آزاد کردہ لونڈی تھی حضرت حاطبؓ نے اسے کچھ دینا کیا تھا اور اس نے اپنے بالوں تلے کاغذ رکھ کر اوپر سے سرگوندھ لیا تھا آپ نے اپنے گھوڑ سواروں سے فرما دیا تھا کہ اس کے پاس حاطبؓ کا دیا ہوا اس مضمون کا خط ہے، آسمان سے اس کی خبر حضورؐ کے پاس آئی تھی بنو ابو احمد کے حلیفہ میں یہ عورت پکڑی گئی تھی، اس عورت نے ان سے کہا تھا کہ تم منہ پھیر لو میں نکال دیتی ہوں انہوں نے منہ پھیر لیا پھر اس نے نکال کر حوالہ کیا، اس روایت میں حضرت حاطبؓ کے جواب میں یہ بھی ہے کہ اللہ کی قسم میں اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر ایمان رکھتا ہوں کوئی تغیر تبدل میرے ایمان میں نہیں ہوا، اور اسی بارے میں اس سورت کی آیتیں حضرت ابراہیم کے قصہ کے ختم تک اتریں، ایک اور روایت میں ہے کہ اس عورت کو اس کی اجرت کے دس درہم حضرت حاطبؓ نے دیئے تھے، اور حضورؐ نے اس خط کے حاصل کرنے کے لئے حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو بھیجا تھا اور حجفہ میں یہ ملی تھی۔ مطلب آیتوں کا یہ ہے کہ اے مسلمانو! مشرکین اور کفار کو جو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومن بندوں سے لڑنے والے ہیں، جن کے دل تمہاری عداوت سے پر ہیں تمہیں ہرگز لائق نہیں کہ ان سے دوستی اور محبت میل ملاپ اور اپنایت رکھو تمہیں اس کے خلاف حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے (ترجمہ) الخ، اے ایماندار و یہود و نصاریٰ سے دوستی مت گانٹھو وہ آپس میں ہی ایک دوسروں کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان سے سوالات و محبت کرے وہ انہی میں سے شمار ہو گا۔ اس میں کس قدر ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے اور جگہ ہے (ترجمہ) الخ، مسلمانو! ان اہل کتاب اور کفار سے دوستیاں نہ کرو جو تمہارے دین کا مذاق اڑاتے ہیں اور اسے کھیل کود سمجھ رہے ہیں اگر تم میں ایمان ہے تو ذات باری سے ڈرو، ایک اور جگہ ارشاد ہے مسلمانو مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں سے دوستیاں نہ کرو کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کا کھلا الزام ثابت کر لو، ایک اور جگہ فرمایا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنوں کے علاوہ کافروں سے دوستانہ نہ کریں جو ایسا کیر گا وہ اللہ کی طرف سے کسی چیزمیں نہیں ہاں بطور دفع الوقتی اور بچاؤ کے ہو تو اور بات ہے اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے آپ سے ڈرا رہا ہے، اسی بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت حاطبؓ کا عذر قبول فرما لیا کہ اپنے مال و اولاد کے بچاؤ کی خاطر یہ کام ان سے ہو گیا تھا، مستند احمد میں ہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ ﷺ نے کئی مثالیں بیان فرمائیں ایک اور تین اور پانچ اور سات اور نو اور گیارہ پھر ان میں سے یہ تفصیل صرف ایک ہی بیان کی باقی سب چھوڑ دیں، فرمایا ایک ضعیف مسکین قوم تھی جس پر زور آور ظالم قوم چڑھائی کر کے آ گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کمزوروں کی مدد کی اور انہیں اپنے دشمن پر غالب کر دیا غالب آ کر ان میں رعونت سما گئی اور انہوں نے ان پر مظالم شروع کر دیئے جس پر اللہ تعالیٰ ان سے ہمیشہ کے لئے ناراض ہو گیا۔ پھر مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے کہ تم ان دشمنان دین سے کیوں مودت و محبت رکھتے ہو؟ حالانکہ یہ تم سے بدسلوکی کرنے میں کسی موقعہ پر کمی نہیں کرتے کیا یہ تازہ واقعہ بھی تمہارے ذہن سے ہٹ گیا کہ انہوں نے تمہیں بلکہ خود رسول اللہ ﷺ کو بھی جبراً وطن سے نکال باہر کیا اور اس کی کوئی اور وجہ نہ تھی سوائے اس کے کہ تمہاری توحید اور فرمانبرداری رسولؐ ان پر گراں گذرتی تھی۔ جیسے اور جگہ ہے (ترجمہ) یعنی مومنوں سے صرف اس بنا پر مخاصمت اور دشمنی ہے کہ وہ اللہ برتر بزرگ پر ایمان رکھتے ہیں اور جگہ ہے یہ لوگ محض اس وجہ سے ناحق جلا وطن کئے گئے کہ وہ کہتے تھے ہمارا رب اللہ ہے۔ پھر فرماتا ہے اگر سچ مچ تم میری راہ کے جہاد کو نکلے ہو اور میری رضامندی کے طالب ہو تو ہرگز ان کفار سے جو تمہارے اور میرے دشمن ہیں میرے دین کو اور تمہارے جان و مال کو نقصان پہنچا رہے ہیں دوستیاں نہ پیدا کرو، بھلا کس قدر غلطی ہے کہ تم ان سے پوشیدہ طور پر دوستانہ رکھو؟کیا یہ پوشیدگی اللہ سے بھی پوشیدہ رہ سکتی ہے؟ جو ظاہر وباطن کا جاننے والا ہے، دلوں کے بھید اور نفس کے وسوسے بھی جس کے سامنے کھلے ہوئے ہیں۔ بس سن لو جو بھی ان کفار سے موالات و محبت رکھے وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا۔ تم نہیں دیکھ رہے؟ کہ ان کافروں کا اگر بس چلے اگر انہیں کوئی موقعہ مل جائے تو نہ اپنے ہاتھ پاؤں سے تمہیں نقصان پہنچانے میں دریغ کریں نہ برا کہنے سے اپنی زبانیں روکیں جو ان کے امکان میں ہوگا وہ کر گذریں گے بلکہ تمام تر کوشش اس امر پر صرف کر دیں گے کہ تمہیں بھی اپنی طرح کافر بنا لیں، پس جب کہ ان کی اندرونی اور بیرنی دشمنی کا حال تمہیں بخوبی معلوم ہے پھر کیا اندھیر ہے؟ کہ تم اپنے دشمنوں کو دوست سمجھ رہے ہو اور اپنی راہ میں آپ کانٹے بو رہے ہو، غرض یہ ہے کہ مسلمانوں کو کافروں پر اعتماد کرنے اور ان سے ایسے گہرے تعلقات رکھنے اور دلی میل رکھنے سے روکا جا رہا ہے اور وہ باتیں یاد دلائی جا رہی ہیں جو ان سے علیحدگی پر آمادہ کر دیں۔ تمہاری قرابتیں اور رشتہ داریاں تمہیں اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئیں گی، اگر تم اللہ کو ناراض کر کے انہیں خوش کرو اور چاہو کہ تمہیں نفع ہو یا نقصان ہٹ جائے یہ بالکل خام خیالی ہ، نہ اللہ کی طرف کے نقصان کو کوئی ٹال سکے نہ اس کے دیئے ہوئے نفع کو کوئی روک سکے، اپنے والوں سے ان کے کفر پر جس نے موافقت کی وہ برباد ہوا، گو رشتہ دار کیسا ہی ہو کچھ نفع نہیں، مسند احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہؐ میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا جہنم میں۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا سن میرا باپ اور تیرا باپ دونوں ہی جہنمی ہیں۔ یہ حدیث صحیح مسلم شریف میں اور سنن ابو داؤد میں بھی ہے۔
مسلمانو! تمہارے لئے حضرت ابراہیم ؑ میں اور ان کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ اور اچھی پیروی موجود ہے۔ جبکہ ان سب نے اپنی قوم سے برملا کہہ دیا کہ ہم تم سے اور جن جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو ان سب سے بالکل بیزار ہیں، ہم تمہارے عقائد کے منکر ہیں جب تک تم اللہ کی وحدانیت پر ایمان نہ لاؤ ہم میں تم میں ہمیشہ کے لئے عداوت و بغض ظاہر ہو گیا لیکن ابراہیم کی اتنی بات تو اپنے باپ سے ہوی تھی کہ میں تمہارے لئے استغفار ضرور کروں گا اور تمہارے لئے مجھے اللہ کے سامنے کسی چیز کا اختیار کچھ بھی نہیں، اے ہمایر پروردگار تجھ ہی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے ا ور تیری ہی طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔ اے اللہ تو ہمیں کافروں کا زبردست اور تختہ مشق نہ بنااور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے، بیشک توہی غالب حکمتوں والا ہے۔ یقیناً تمہارے لئے ان میں نیک نمونہ اور عمدہ پیروی ہے خاص کر ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی ملاقات کا اعتقاد رکھتا ہو اور اگر کوئی روگردانی کرے تو اللہ تعالیٰ بالکل بےپرواہ ہے اور وہ سزا وار حمد و ثناء ہے۔

Select your favorite tafseer