وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا ٭ۖ وَّ اٰتٰىکُمۡ مَّا لَمۡ یُؤۡتِ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۰﴾

(20 - المآئدۃ)

Qari:


And [mention, O Muhammad], when Moses said to his people, "O my people, remember the favor of Allah upon you when He appointed among you prophets and made you possessors and gave you that which He had not given anyone among the worlds.

اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ بھائیو تم پر خدا نے جو احسان کئے ہیں ان کو یاد کرو کہ اس نے تم میں پیغمبر پیدا کیے اور تمہیں بادشاہ بنایا اور تم کو اتنا کچھ عنایت کیا کہ اہل عالم میں سے کسی کو نہیں دیا

[وَاِذْ: اور جب] [قَالَ: کہا] [مُوْسٰى: موسی] [لِقَوْمِهٖ: اپنی قوم کو] [يٰقَوْمِ: اے میری قوم] [اذْكُرُوْا: تم یاد کرو] [نِعْمَةَ اللّٰهِ: اللہ کی نعمت] [عَلَيْكُمْ: اپنے اوپر] [اِذْ: جب] [جَعَلَ: اس نے پیدا کیے] [فِيْكُمْ: تم میں] [اَنْۢبِيَاۗءَ: نبی (جمع)] [وَجَعَلَكُمْ: اور تمہیں بنایا] [مُّلُوْكًا: بادشاہ] [وَّاٰتٰىكُمْ: اور تمہیں دیا] [مَّا: جو] [لَمْ يُؤْتِ: نہیں دیا] [اَحَدًا: کسی کو] [مِّنَ: سے] [الْعٰلَمِيْنَ: جہانوں میں]

Tafseer / Commentary

تسلسل انبیاء نسل انسانی پہ اللہ کی رحمت
حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو اللہ کی جو نعمتیں یاد دلا کر اس کی اطاعت کی طرف مائل کیا تھا ، اس کا بیان ہو رہا ہے کہ فرمایا "لوگو اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے ایک کے بعد ایک نبی تم میں تمہیں میں سے بھیجا۔ " حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے بعد سے انہی کی نسل میں نبوت رہی۔ یہ سب انبیاء تمہیں دعوت توحید و اتباع دیتے رہے۔ یہ سلسلہ حضرت عیسیٰ روح اللہ پر ختم ہوا ، پھر خاتم الانبیاء و الرسل حضرت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت کاملہ عطا ہوئی ، آپ اسماعیل کے واسطہ سے حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے تھے ، جو اپنے سے پہلے کے تمام رسولوں اور نبیوں سے افضل تھے۔ اللہ آپ پر درود و سلام نازل فرمائے اور تمہیں اس نے بادشاہ بنا دیا یعنی خادم دیئے ، بیویاں دیں ، گھر بار دیا اور اس وقت جتنے لوگ تھے ، ان سب سے زیادہ نعمتیں تمہیں عطا فرمائیں۔ یہ لوگ اتنا پانے کے بعد بادشاہ کہلانے لگتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص سے ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں فقراء مہاجرین میں سے نہیں ہوں؟ آپ نے فرمایا تیری بیوی ہے؟ اس نے کہا ہاں گھر بھی ہے؟ کہا ہاں ، کہا پھر تو تو غنی ہے ، اس نے کہا یوں تو میرا خادم بھی ہے ، آپ نے فرمایا پھر تو تو بادشاہوں میں سے ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں "سواری اور خادم ملک ہے"۔ بنو اسرائیل ایسے لوگوں کو ملوک کہا کرتے تھے۔ بقول قتادہ خادموں کا اول رواج ان بنی اسرائیلیوں نے ہی دیا ہے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ان لوگوں میں جس کے پاس خادم ، سواری اور بیوی ہو وہ بادشاہ کہا جاتا تھا۔ ایک اور مرفوع حدیث میں ہے "جس کا گھر ہو اور خادم ہو وہ بادشاہ ہے"۔ یہ حدیث مرسل اور غریب ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے "جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ اس کا جسم صحیح سالم ہو ، اس کا نفس امن و امان میں ہو ، دن بھر کفایت کرے ، اس کیلئے اتنا مال بھی ہو تو اس کیلئے گویا کل دنیا سمٹ کر آ گئی"۔ اس وقت جو یونانی قبطی وغیرہ تھے ان سے یہ اشرف و افضل مانے گئے تھے اور آیت میں ہے ہم نے بنو اسرائیل کو کتاب ، حکم ، نبوت ، پاکیزہ روزیاں اور سب پر فضیلت دی تھی۔ حضرت موسیٰ سے جب انہوں نے مشرکوں کی دیکھا دیکھی اللہ بنانے کو کہا اس کے جواب میں حضرت موسیٰ نے اللہ کے فضل بیان کرتے ہوئے یہی فرمایا تھا کہ اس نے تمہیں تمام جہان پر فضیلت دے رکھی ہے۔ مطلب سب جگہ یہی ہے کہ اس وقت کے تمام لوگوں پر کیونکہ یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یہ امت ان سے افضل ہے ، کیا شرعی حیثیت سے ، کیا احامی حیثیت سے ، کیا نبوت کی حیثیت سے ، کیا بادشاہت ، عزت ، مملکت ، دولت ، حشمت مال ، اولاد وغیرہ کی حیثیت سے ، خود قرآن فرماتا ہے آیت (كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ) 3۔آل عمران:110) اور فرمایا آیت (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2۔ البقرۃ:143) یہ بھی کہا گیا ہے کہ "بنو اسرائیل کے ساتھ اس فضیلت میں امت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی شامل کر کے خطاب کیا گیا ہے" اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ "بعض امور میں انہیں فی الواقع علی الاطلاق فضیلت دی گئی تھی جیسے من و سلویٰ کا اترنا ، بادلوں سے سایہ مہیا کرنا وغیرہ جو خلاف عادت چیزیں تھیں"۔ یہ قول اکثر مفسرین کا ہے جیسا پہلے بیان ہو چکا ہے کہ مراد اس سے ان کے اپنے زمانے والوں پر انہیں فضیلت دیا جانا ہے واللہ اعلم۔ پھر بیان ہوتا ہے کہ "بیت المقدس دراصل ان کے دادا حضرت یعقوب کے زمانہ میں انہی کے قبضے میں تھا اور جب وہ مع اپنے اہل و عیال کے حضرت یوسف کے پاس مصر چلے گئے تو یہاں عمالقہ قوم اس پر قبضہ جما بیٹھی ، وہ بڑے مضبوط ہاتھ پیروں کی تھی۔ اب حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ تم ان سے جہاد کرو اللہ تمہیں ان پر غالب کرے گا اور یہاں کا قبضہ پھر تمہیں مل جائے گا لیکن یہ نامردی دکھاتے ہیں اور بزدلی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ ان کی سزا میں انہیں چالیس سال تک وادی تیہ میں حیران و سرگرداں خانہ بدوشی میں رہنا پڑتا ہے ، مقدسہ سے مراد پاک ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ وادی طور اور اس کے پاس کی زمین کا ذکر ہے ایک روایت میں اریحاء کا ذکر ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں ، اس لئے کہ نہ تو اریحاء کا فتح کرنا مقصود تھا ، نہ وہ ان کے راستے میں تھا ، کیونکہ وہ فرعون کی ہلاکت کے بعد مصر کے شہروں سے آ رہے تھے اور بیت المقدس جا رہے تھے ، یہ ہو سکتا ہے کہ وہ مشہور شہر جو طور کی طرف بیت المقدس کے مشرقی رخ پر تھا " "اللہ نے اسے تمہارے لئے لکھ دیا ہے" مطلب یہ ہے کہ تمہارے باپ اسرائیل سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تیری اولاد کے باایمان لوگوں کے ورثے میں آئے گا ، تم اپنی پیٹھوں پر مرتد نہ ہو جاؤ۔ یعنی جہاد سے منہ پھیر کر تھک کر نہ بیٹھ جاؤ ، ورنہ زبردست نقصان میں پڑ جاؤ گے۔ جس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ جس شہر میں جانے اور جن شہریوں سے جہاد کرنے کیلئے آپ فرما رہے ہیں ، ہمیں معلوم ہے کہ وہ بڑے قوی طاقتور اور جنگجو ہیں ، ہم ان سے مقابلہ نہیں کر سکتے ، جب تک وہ وہاں موجود ہیں ، ہم اس شہر میں نہیں جا سکتے ، ہاں اگر وہ لوگ وہاں سے نکل جائیں تو ہم چلے جائیں گے ، ورنہ آپ کے حکم کی تعمیل ہماری طاقت سے باہر ہے ، ابن عباس کا بیان ہے کہ "حضرت موسیٰ جب اریحاء کے قریب پہنچ گئے تو آپ نے بارہ جاسوس مقرر کئے ، بنو اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک جاسوس لیا اور انہیں اریحاء میں بھیج کر صحیح خبریں لے آئیں۔ یہ لوگ جب گئے تو ان کی جسامت اور قوت سے خوف زدہ ہو گئے۔ ایک باغ میں یہ سب کے سب تھے ، اتفاقاً باغ والا پھل توڑنے کیلئے آ گیا ، وہ پھل توڑتا ہوا ان کے قدموں کے نشان ڈھونڈتا ہوا ان کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بھی پھلوں کے ساتھ ہی ساتھ اپنی گٹھڑی میں باندھ لیا اور جاکر بادشاہ کے سامنے باغ کے پھل کی گٹھڑی کھول کر ڈال دی ، جس میں یہ سب کے سب تھے ، بادشاہ نے انہیں کہا اب تو تمہیں ہماری قوت کا اندازہ ہو گیا ہے ، تمہیں قتل نہیں کرتا جاؤ واپس جاؤ اور اپنے لوگوں سے ہماری قوت بیان کر دو۔ چنانچہ انہوں نے جاکر سب حال بیان کیا جس سے بنو اسرائیل رعب میں آ گئے"۔ لیکن اس کی اسناد ٹھیک نہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ ان بارہ لوگوں کو ایک شخص نے پکڑ لیا اور اپنی چادر میں گٹھڑی باندھ کر نہر میں لے گیا اور لوگوں کے سامنے انہیں ڈال دیا ، انہوں نے پوچھا تم کون لوگ ہو؟ جواب دیا کہ ہم موسیٰ کی قوم کے لوگ ہیں ، ہم تمہاری خبریں لینے کیلئے بھیجے گئے تھے۔ انہوں نے ایک انگور ان کو دیا جو ایک شخص کو کافی تھا اور کہا جاؤ ان سے کہہ دو کہ یہ ہمارے میوے ہیں۔ انہوں نے واپس جا کر قوم سے سب حال کہدیا ، اب حضرت موسیٰ نے انہیں جہاد کا اور اس شہر میں جانے کا حکم دیا تو انہوں نے صاف کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جائیں اور لڑیں ہم تو یہاں سے ہلنے کے بھی نہیں۔ حضرت انس نے ایک بانس لے کر ناپا جو پچاس یا پچپن ہاتھ کا تھا ، پھر اسے گاڑ کر فرمایا "ان عمالیق کے قد اس قدر لانبے تھے"۔ مفسرین نے یہاں پر اسرائیلی روایتیں بہت سی بیان کی ہیں کہ یہ لوگ اس قدر قوی تھے ، اتنے موٹے اور اتنے لمبے قد تھے ، انہی میں عوج بن عنق بن حضرت آدم تھا ، جس کا قد لمبائی میں (3333) تین ہزار تین سو تیتس گز کا تھا ، اور چوڑائی اس کے جسم کی تین گرز کی تھی لیکن یہ سب باتیں واہی ہیں ، ان کے تو ذکر سے بھی حیا مانع ہے ، پھر یہ صحیح حدیث کے خلاف بھی ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو ساٹھ ہاتھ پیدا کیا تھا ، پھر سے آج تک مخلوق کے قد گھٹتے ہی رہے ، ان اسرائیلی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عوج بن عنق کافر تھا اور ولد الزنا تھا یہ طوفان نوح میں تھے اور حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی میں نہ بیٹھا تھا ، تاہم پانی اس کے گھٹنوں تک بھی نہ پہنچا تھا۔ یہ محض لغو اور بالکل جھوٹ ہے بلکہ قرآن کے خلاف ہے ، قرآن کریم میں نوح کی دعا یہ مذکور ہے کہ زمین پر ایک کافر بھی نہ بچنا چاہئے ، یہ دعا قبول ہوئی اور یہی ہوا بھی ، قرآن فرماتا ہے "ہم نے نوح کو اور ان کی کشتی والوں کو نجات دی ، پھر باقی کے سب کافروں کو غرق کر دیا "۔ خود قرآن میں ہے کہ "آج کے دن بجز ان لوگوں کے جن پر رحمت حق ہے ، کوئی بھی بچنے کا نہیں" تعجب سا تعجب ہے کہ نوح کا لڑکا بھی جو ایماندار نہ تھا بچ نہ سکے لیکن عوج بن عنق کافر ولد الزنا بچ رہے۔ یہ بالکل عقل و نقل کے خلاف ہے بلکہ ہم تو سرے سے اس کے بھی قائل نہیں کہ عوج بن عنق نامی کوئی شخص تھا واللہ اعلم۔ بنی اسرائیل جب اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے بلکہ ان کے سامنے سخت کلامی اور بے ادبی کرتے تو وہ شخص جن پر اللہ کا انعام و اکرام تھا ، وہ انہیں سمجھاتے ہیں۔ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف تھا ، وہ ڈرتے تھے ، کہ بنی اسرائیل کی اس سرکشی سے کہیں عذاب الٰہی نہ آ جائے ، ایک قرأت میں (یخافون) کے بدلے (یھابون) ہے ، اس سے مراد یہ ہے کہ "ان دونوں بزرگوں کی قوم میں عزت و عظمت تھی"۔ ایک کا نام حضرت یوشع بن نون تھا دوسرے کا نام کالب بن یوفا تھا "۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم اللہ پر بھروسہ رکھو گے ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان دشمنوں پر غالب کر دے گا اور وہ تمہاری مدد کو تائید کرے گا اور تم اس شہر میں غلبے کے ساتھ پہنچ جاؤ گے ، تم دروازے تک تو چلے چلو ، یقین مانو کہ غلبہ تمہارا ہی ہے۔ لیکن ان نامرادوں نے اپنا پہلا جواب اور مضبوط کر دیا اور کہا کہ اس جبار قوم کی موجودگی میں ہمارا ایک قدم بڑھانا بھی ناممکن ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون نے دیکھ کر بہت سمجھایا یہاں تک کہ ان کے سامنے بڑی عاجزی کی لیکن وہ نہ جانے۔ یہ حال دیکھ کر حضرت یوشع اور حضرت کالب نے اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے اور انہیں بہت کچھ ملامت کی۔ لیکن یہ بدنصیب اور اکڑ گئے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان دونوں بزرگوں کو انہوں نے پتھروں سے شہید کر دیا ، ایک طوفان بدتمیزی شروع ہو گیا اور بےطرح مخالفت رسول پر تل گئے۔ ان کے اس حال کو سامنے رکھ کر پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے حال کو دیکھئے کہ جب نو سو یا ایک ہزار کافر اپنے قافلے کو بچانے کیلئے چلے ، قافلہ تو دوسرے راستے سے نکل گیا لیکن انہوں نے اپنی طاقت و قوت کے گھمنڈ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچائے بغیر واپس جانا اپنی امیدوں پر پانی پھیرنا ، سمجھ کر اسلام اور مسلمانوں کو کچل ڈالنے کے ارادے سے مدینہ کا رخ کیا ، ادھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ نے اپنے صحابہ سے کہا کہ بتاؤ اب کیا کرنا چاہئے؟ اللہ ان سب سے خوش رہے ، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اپنے مال اپنی جانیں اور اپنے اہل عیال سب کو ہیچ سمجھا نہ کفار کے غلبے کو دیکھا ، نہ اسباب پر نظر ڈالی بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پہ قربان ہیں۔ سب سے پہلے حضرت صدیق نے اس قسم کی گفتگو کی ، پھر مہاجرین صحابہ میں سے کئی ایک نے اسی قسم کی تقریر کی۔ لیکن پھر بھی آپ نے فرمایا؟ اور بھی کوئی شخص اپنا ارادہ ظاہر کرنا چاہے تو کرے ، آپ کا مقصد اس سے یہ تھا کہ انصار کا دلی ارادہ معلوم کریں ، اس لئے کہ یہ جگہ انہی کی تھی اور تعداد میں بھی یہ مہاجرین سے زیادہ تھے۔ اس پر حضرت سعد بن معاذ انصاری و انصار کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے شاید آپ کا ارادہ ہماری منشاء معلوم کرنے کا ہے "سنئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ سچا نبی بنا کر بھیجا ہے کہ اگر آپ ہمیں سمندر کے کنارے کھڑا کر کے فرمائیں کہ اس میں کود جاؤ تو بغیر کسی پس و پیش کے اس میں کود جائیں گے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم میں سے ایک بھی نہ ہو گا جو کنارے پر کھڑا رہ جائے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ہمیں شوق سے لے چلئے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ ہم لڑائی میں صبر اور ثابت قدمی دکھانے والے لوگ ہیں ، آپ جان لیں گے کہ ہم اللہ کی ملاقات کو سچ جاننے والے لوگ ہیں ، آپ اللہ کا نام لیجئے ، کھڑے ہو جایئے ہمیں دیکھ کر ہماری بہادری اور استقلال کو دیکھ کر انشاء اللہ آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی" یہ سن کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے اور آپ کو انصار کی یہ باتیں بہت ہی بھلی معلوم ہوئیں رضی اللہ عنہم۔ " ایک روایت میں ہے کہ بدر کی لڑائی کے موقعہ پر آپ نے مسلمانوں سے مشورہ لیا ، حضرت عمر نے کچھ کہا پھر انصاریوں نے کہا کہ اگر آپ ہماری سننا چاہتے ہیں ، تو سنئے ہم بنی اسرائیل کی طرح نہیں ، جو کہدیں کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑیں ، ہم یہاں بیٹھے ہیں ، بلکہ ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ اللہ کی مدد لے کر جہاد کیلئے چلئے ، ہم جان و مال سے آپ کے ساتھ ہیں۔ حضرت مقداد انصاری نے بھی کھڑے ہو کر یہی فرمایا تھا۔ حضرت ابن مسعود فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مقداد کے اس قول سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہو گئے ، انہوں نے کہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کے وقت دیکھ لیں گے کہ آپ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہم ہی ہم ہوں گے۔ کاش کہ کوئی ایسا موقع مجھے میسر آتا کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر خوش کر سکتا۔ ایک روایت میں حضرت مقداد کا یہ قول حدیبیہ کے دن مروی ہے جبکہ مشرکین نے آپ کو عمرہ کیلئے بیت اللہ شریف جاتے ہوئے راستے میں روکا اور قربانی کے جانور بھی ذبح کی جگہ نہ پہنچ سکے تو آپ نے فرمایا میں تو اپنی قربانی کے جانور کو لے کر بین اللہ پہنچ کر قربان کرنا چاہتا ہوں تو حضرت مقداد بن اسود نے فرمایا ہم اصحاب موسیٰ کی طرح نہیں کہ انہوں نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہدیا کہ آپ اور آپ کا اللہ جا کر لڑ لو ہم تو یہاں بیھٹے ہیں۔ ہم کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ چلئے اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو اور ہم سب کے سب آپ کے ساتھی ہیں ، یہ سن کر اصحاب نے بھی اسی طرح جاں نثاروں کے وعدے کرنے شروع کر دیئے۔ پس اگر اس روایت میں حدیبیہ کا ذکر محفوظ ہو تو ہو سکتا ہے کہ بدر والے دن بھی آپ نے یہ فرمایا ہو اور حدیبیہ والے دن بھی یہی فرمایا ہو واللہ اعلم۔ حضرت موسیٰ کو اپنی امت کا یہ جواب سن کر ان پر بہت غصہ آیا اور اللہ کے سامنے ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کیا کہ "رب العالمین مجھے تو اپنی جان پر اور اپنے بھائی پر اختیار ہے ، تو میرے اور میری قوم کے ان فاسقوں کے درمیان فیصلہ فرما "۔ جناب باری نے یہ دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ اب چالیس سال تک یہاں سے جا نہیں سکتے۔ وادی تیہ میں حیران و سرگرداں گھومتے پھرتے رہیں گے ، کسی طرح اس کی حدود سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ یہاں انہوں نے عجیب و غریب خلاف عادت امور دیکھے مثلاً ابر کا سایہ ان پر ہونا ، من و سلویٰ کا اترنا۔ ایک ٹھوس پتھر سے ، جو ان کے ساتھ تھا ، پانی کا نکلنا ، حضرت موسیٰ نے اس پتھر پر ایک لکڑی ماری تو فوراً ہی اس سے بارہ چشمے پانی کے جاری ہو گئے اور ہر قبیلے کی طرف ایک چشمہ بہ نکلا ، اس کے سوا اور بھی بہت سے معجزے بنو اسرائیل نے وہاں پر دیکھے ، یہیں تورات اتری ، یہیں احکام الٰہی نازل ہوئے وغیرہ وغیرہ ، اسی میدان میں چالیس سال تک یہ گھومتے پھرتے رہے لیکن کوئی راہ وہاں سے گزر جانے کی انہیں نہ ملی۔ ہاں ابر کا سایہ ان پر کر دیا گیا اور من و سلویٰ اتار دیا گیا۔ فتون کی مطول حدیث میں ابن عباس سے یہ سب مروی ہے۔ پھر حضرت ہارون کی وفات ہو گئی اور اس کے تین سال بعد کلیم اللہ حضرت موسیٰ بھی انتقال فرما گئے ، پھر آپ کے خلیفہ حضرت یوشع بن نون نبی بنائے گئے۔ اسی اثناء میں بہت سے بنی اسرائیل مر مرا چکے تھے ، بلکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف حضرت یوشع اور کالب ہی باقی رہے تھے۔ بعض مفسرین سنتہ پر وقف تام کرتے ہیں اور اربعین سنتہ کو نصب کی حالت میں مانتے ہیں اور اس کا عامل (یتبھون فی الارض) کو بتلاتے ہیں۔ اس سے بھی باقی بنو اسرائیل ان کے ساتھ ہو لئے اور آپ نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا۔ جمعہ کے دن عصر کے بعد جب کہ فتح کا وقت آ پہنچا دشمنوں کے قدم اکھڑ گئے ، اتنے میں سورج ڈوبنے لگا اور سورج ڈوبنے کے بعد ہفتے کی تعظیم کی وجہ سے لڑائی ہو نہیں سکتی تھی اس لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سورج تو بھی اللہ کا غلام ہے اور میں بھی اللہ کا محکوم ہوں ، اے اللہ اسے ذرا سی دیر روک دے۔ چنانچہ اللہ کے حکم سے سورج رک گیا اور آپ نے دلجمعی کے ساتھ بیت المقدس کو فتح کر لیا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ بنی اسرائیل کو کہدو اس شہر کے دروازے میں سجدے کرتے ہوئے جائیں اور حطتہ کہیں یعنی یا اللہ ہماری گناہ معاف فرما۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل دیا۔ رانوں پر گھسٹتے ہوئے ہوئے اور زبان سی (حبتہ فی شعرۃ) کہتے ہوئے شہر میں گئے ، مزید تفصیل سورہ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، دوسری روایت میں اتنی زیادتی بھی ہے کہ اس قدر مال غنیمت انہیں حاصل ہوا کہ اتنا مال کبھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا۔ فرمان رب کے مطابق اسے آگ میں جلانے کیلئے آگ کے پاس لے گئے لیکن آگ نے اسے جلایا نہیں اس پر ان کے نبی حضرت یوشع نے فرمایا "تم میں سے کسی نے اس میں سے کچھ چرا لیا ہے پس میرے پاس ہر قبیلے کا سردار آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کرے" چنانچہ یونہی کیا گیا ، ایک قبیلے کے سردار کا ہاتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے چپک گیا ، آپ نے فرمایا "تیرے پاس جو بھی خیانت کی چیز ہے ، اسے لے آ "۔ اس نے ایک گائے کا سر سونے کا بنا ہوا پیش کیا ، جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں اور دانت موتیوں کے تھے ، جب وہ بھی دوسرے مال کے ساتھ ڈال دیا گیا ، اب آگ نے اس سب مال کو جلا دیا۔ امام ابن جریر نے بھی اسی قول کو پسند کیا ہے (اربعین سنتہ) میں (فانھا محرمتہ) عامل ہے ، اور بنی اسرائیل کی یہ جماعت چالیس برس تک اسی میدان تیہ میں سرگرداں رہی پھر حضرت موسیٰ کے ساتھ یہ لوگ نکلے اور بیت المقدس کو فتح کیا اس کی دلیل اگلے علماء یہود کا اجماع ہے کہ عوج بن عنق کو حضرت کلیم اللہ نے ہی قتل کیا ہے۔ اگر اس کا قتل عمالیق کی اس جنگ سے پہلے کا ہوتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ بنی اسرائیل جنگ عمالیق کا انکار کر بیٹھتے؟ تو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ تیہ سے چھوٹنے کے بعد کا ہے ، علماء یہود کا اس پر بھی اجماع ہے کہ بلعام بن باعورا نے قوم عمالیق کے جباروں کی اعانت کی اور اس نے حضرت موسیٰ پر بددعا کی۔ یہ واقعہ بھی اس میدان کی قید سے چھوٹنے کے بعد کا ہے۔ اس لئے کہ اس سے پہلے تو جباروں کو موسیٰ اور ان کی قوم سے کوئی ڈر نہ تھا۔ ابن جریر کی یہی دلیل ہے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ کا عصا دس ہاتھ کا تھا اور آپ کا قد بھی دس ہاتھ کا تھا اور دس ہاتھ زمین سے اچھل کر آپ نے عوج بن عنق کو وہ عصا مارا تھا جو اس کے ٹخنے پر لگا اور وہ مر گیا ، اس کے جثے سے نیل کا پل بنایا گیا تھا ، جس پر سے سال بھر تک اہل نیل آتے جاتے رہے۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ اس کا تخت تین گز کا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ تو اپنی قوم بنی اسرائیل پر غم و رنج نہ کر ، وہ اسی جیل خانے کے مستحق ہیں ، اس واقعہ میں درحقیقت یہودیوں کو ڈانٹ ڈپٹ کا ذکر ہے اور ان کی مخالفتوں کا اور برائیوں کا بیان ہے یہ دشمنان رب سختی کے وقت اللہ کے دین پر قائم نہیں رہتے تھے ، رسولوں کی پیروی سے انکار کر جاتے تھے ، جہاد سے جی چراتے تھے ، اللہ کے اس کلیم و بزرگ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کا ، ان کے وعدے کا ، ان کے حکم کا کوئی پاس انہوں نے نہیں کیا ، دن رات معجزے دیکھتے تھے ، فرعون کی بربادی اپنی آنکھوں دیکھ لی تھی اور اسے کچھ زمانہ بھی نہ گزرا تھا ، اللہ کے بزرگ کلیم پیغمبر ساتھ ہیں ، وہ نصرت و فتح کے وعدے کر رہے ہیں ، مگر یہ ہیں کہ اپنی بزدلی میں مرے جا رہے ہیں اور نہ صرف انکار بلکہ ہولناکی کے ساتھ انکار کرتے ہیں ، نبی اللہ کی بے ادبی کرتے ہیں اور صاف جواب دیتے ہیں۔ اپنی آنکھوں دیکھ چکے ہیں کہ فرعون جیسے با سامان بادشاہ کو اس کے سازو سامان اور لشکر و رعیت سمیت اس رب نے ڈبو دیا۔ لیکن پھر بھی اسی بستی والوں کی طرف اللہ کے بھروسے پر اس کے حکم کی ماتحتی میں نہیں بڑھتے حالانکہ یہ فرعون کے دسویں حصہ میں بھی نہ تھے۔ پس اللہ کا غضب ان پر نازل ہوتا ہے ، ان کی بزدلی دنیا پر ظاہر ہو جاتی ہے اور آئے دن ان کی رسوائی اور ذلت بڑھتی جاتی ہے۔ گویہ لوگ اپنے تئیں اللہ کے محبوب جانتے تھے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ رب کی نظروں سے یہ گر گئے تھے ، دنیا میں ان پر طرح طرح کے عذاب آئے ، سور بندر بھی بنائے گئے ، لعنت ابدی میں یہاں گرفتار ہو کر عذاب اخروی کے دائمی شکار بنائے گئے۔ پس تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی فرمانبرداری تمام بھلائیوں کی کنجی ہے۔

Select your favorite tafseer