Qari: |
And say, "My Lord, cause me to enter a sound entrance and to exit a sound exit and grant me from Yourself a supporting authority."
اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو۔ اور اپنے ہاں سے زور وقوت کو میرا مددگار بنائیو
[وَقُلْ: اور کہیں] [رَّبِّ: اے میرے رب] [اَدْخِلْنِيْ: مجھے داخل کر] [مُدْخَلَ: داخل کرنا] [صِدْقٍ: سچا] [وَّاَخْرِجْنِيْ: اور مجھے نکال] [مُخْــرَجَ: نکالنا] [صِدْقٍ: سچا] [وَّاجْعَلْ: اور عطا کر] [لِّيْ: میرے لیے] [مِنْ لَّدُنْكَ: اپنی طرف سے] [سُلْطٰنًا: غلبہ] [نَّصِيْرًا: مدد دینے والا]
حکم ہجرت
مسند احمد میں حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری ۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کرلیں پس اللہ کیا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے ۔ اس نے اپنے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مدینے جانے کا حکم فرمایا ۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ھے ۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں مدینے میں داخل ہونا اور مکے سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو ۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا اتنا تو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے اس لئے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں یہ غلب بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا ۔ ہر زور اور کمزور کا شکار کر لیتا ۔
سلطنا نصیرا سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لئے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں ۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے ۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آ چکا ۔ سچائی اتر آئی ، جس میں کوئی شک شبہ نہیں ، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آ گیا ، کفر برباد و غارت اور بےنام و نشان ہو گیا ، وہ حق کے مقابلہ میں بےدست و پاثابت ہوا ، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور نابود اور بےوجود ہو گیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے ، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے ۔ ابو یعلی میں ہے کہ ہم حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ مکے میں آئے ، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے ، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی آپ نے فورا حکم دیا کا ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔