رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا ﴿۲۵﴾

(25 - الاسراء)

Qari:


Your Lord is most knowing of what is within yourselves. If you should be righteous [in intention] - then indeed He is ever, to the often returning [to Him], Forgiving.

جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا پروردگار اس سے بخوبی واقف ہے۔ اگر تم نیک ہوگے تو وہ رجوع لانے والوں کو بخش دینے والا ہے

[رَبُّكُمْ: تمہارا رب] [اَعْلَمُ: خوب جانتا ہے] [بِمَا: جو] [فِيْ نُفُوْسِكُمْ: تمہارے دلوں میں] [اِنْ: اگر] [تَكُوْنُوْا: تم ہوگے] [صٰلِحِيْنَ: نیک (جمع)] [فَاِنَّهٗ: تو بیشک وہ] [كَانَ: ہے] [لِلْاَوَّابِيْنَ: رجوع کرنیوالوں کے لیے] [غَفُوْرًا: بخشنے والا]

Tafseer / Commentary

گناہ اور استغفار
اس سے مراد وہ لوگ ہیں ، جن سے جلدی میں اپنے ماں باپ کے ساتھ کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے جسے وہ اپنے نزدیک عیب کی اور گناہ کی بات نہیں سمجھتے ہیں چونکہ ان کی نیت بخیر ہوتی ہے ، اس لیے اللہ ان پر رحمت کرتا ہے جو ماں باپ کا فرمانبردار نمازی ہو اس کی خطائیں اللہ کے ہاں معاف ہیں ۔ کہتے ہیں کہ اوابین وہ لوگ ہیں جو مغرب عشا کی درمیان نوافل پڑھیں ۔ بعض کہتے ہیں جو صبح کی نماز ادا کرتے رہیں جو ہر گناہ کے بعد توبہ کر لیا کریں ۔ جو جلدی سے بھلائی کی طرف لوٹ آیا کریں ۔ تنہائی میں اپنے گناہوں کو یاد کر کے خلوص دل سے استغفار کر لیا کریں ۔ عبید کہتے ہیں جو برابر ہر مجلس سے اٹھتے ہوئے یہ دعا پڑھ لیا کریں ۔ دعا (اللہم اغفرلی ما اصبت فی مجلسی ھذا) ابن دریر فرماتے ہیں اولیٰ قول یہ ہے کہ جو گناہ سے توبہ کر لیا کریں ۔ معصیت سے طاعت کی طرف آ جایا کریں ۔ اللہ کی ناپسندیدگی کے کاموں کو ترک کر کے اس کے اس کی رضا مندی اور پسندیدگی کے کام کرنے لگیں ۔ یہی قول بہت ٹھیک ہے کیونکہ لفظ اواب مشتق ہے اوب سے اور اس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں جیسے عرب کہتے ہیں اب فلان اور جیسے قرآن میں ہے آیت ( اِنَّ اِلَيْنَآ اِيَابَهُمْ 25؀ۙ) 88- الغاشية:25) ان کا لوٹنا ہماری ہی طرف ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) جب سفر سے لوٹتے تو فرماتے دعا (ائبون تائبون عابدون لربنا حامدون) لوٹنے والے توبہ کرنے والے عبادتیں کرنے والے اپنے رب کی ہی تعریفیں کرنے والے ۔

Select your favorite tafseer