کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۸﴾

(28 - البقرۃ)

Qari:


How can you disbelieve in Allah when you were lifeless and He brought you to life; then He will cause you to die, then He will bring you [back] to life, and then to Him you will be returned.

(کافرو!) تم خدا سے کیوں کر منکر ہو سکتے ہو جس حال میں کہ تم بےجان تھے تو اس نے تم کو جان بخشی پھر وہی تم کو مارتا ہے پھر وہی تم کو زندہ کرے گا پھر تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے

[کَيْفَ: کس طرح] [تَكْفُرُوْنَ: تم کفر کرتے ہو] [بِاللہِ: اللہ کا] [وَكُنْتُمْ: اور تم تھے] [اَمْوَاتًا: بے جان] [فَاَحْيَاكُمْ: سواس نے تمہیں زندگی بخشی] [ثُمَّ يُمِیْتُكُمْ: پھر وہ تمہیں مارے گا] [ثُمَّ: پھر][يُحْيِیْكُمْ: تمہیں جلائے گا] [ثُمَّ: پھر] [اِلَيْهِ: اس کی طرف] [تُرْجَعُوْنَ: لوٹائے جاؤگے]

Tafseer / Commentary

ٹھوس دلائل پر مبنی دعوت
اس بات کا ثبوت دیتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے وہ قدرتوں والا ہے۔ وہی پیدا کرنے والا اور اختیار والا ہے۔ اس آیت میں فرمایا تم اللہ تعالیٰ کے وجود سے انکار کیسے کر سکتے ہو؟ یا اس کے ساتھ دوسرے کو عبادت میں شریک کیسے کر سکتے ہو؟ جبکہ تمہیں عدم سے وجود میں لانے والا ایک وہی ہے۔ دوسری جگہ فرمایا کیا یہ بغیر کسی چیز کے پیدا کئے گئے؟ یا یہ خود پیدا کرنے والے ہیں؟ انہوں نے زمین و آسمان بھی پیدا کیا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ بےیقین لوگ ہیں۔ اور جگہ ارشاد ہوتا ہے آیت (ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیأ مذکورا) یقینا انسان پر وہ زمانہ بھی آیا ہے جس وقت یہ قابل ذکر چیز ہی نہ تھا۔ اور بھی اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کفار جو کہیں گے آیت ( رَبَّنَآ اَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ) 40۔غافر:11) اے اللہ دو دفعہ تو نے ہمیں مارا اور دو دفعہ جلایا ہمیں اپنے گناہوں کا اقرار ہے ۔ اس سے مراد یہی ہے جو اس آیت (وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ) 2۔ البقرۃ:28) میں ہے مطلب یہ ہے کہ تم اپنے باپوں کی پیٹھ میں مردہ تھے یعنی کچھ بھی نہ تھے۔ اس نے تمہیں زندہ کیا یعنی پیدا کیا پھر تمہیں مارے گا یعنی موت ایک روز ضرور آئے گی پھر تمہیں قبروں سے اٹھائے گا۔ پس ایک حالت مردہ پن کی دنیا میں آنے سے پہلے پھر دوسری دنیا میں مرنے اور قبروں کی طرف جانے کی پھر قیامت کے روز اٹھ کھڑے ہونے کی۔ دو زندگیاں اور دو موتیں۔ ابو صالح فرماتے ہیں کہ قبر میں انسان کو زندہ کر دیا جاتا ہے۔ عبدالرحمن بن زید کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیٹھ میں انہیں پیدا کیا پھر ان سے عہد و پیمان لے کر بےجان کر دیا پھر ماں کے پیٹ میں انہیں پیدا کیا پھر دنیوی موت ان پر آئی پھر قیامت والے دن انہیں زندہ کرے گا لیکن یہ قول غریب ہے۔ پہلا قول ہی درست ہے۔ ابن مسعود، ابن عباس اور تابعین کی ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ قرآن میں اور جگہ ہے آیت (قُلِ اللّٰهُ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ لَا رَيْبَ فِيْهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ) 45۔ الجاثیۃ:26) اللہ ہی تمہیں پیدا کرتا ہے پھر مارتا ہے پھر تمہیں قیامت کے دن جمع کرے گا۔ ان پتھروں اور تصویروں کو جنہیں مشرکین پوجتے تھے قرآن نے مردہ کہا۔ فرمایا اموات غیر احیاء وہ سب مردہ ہیں زندہ نہیں۔ زمین کے بارے میں فرمایا آیت (وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ) 36۔یس:33) ان کے لئے مردہ زمین بھی ہماری صداقت کی نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں۔

Select your favorite tafseer