Qari: |
[Allah] said, "O Moses, I have chosen you over the people with My messages and My words [to you]. So take what I have given you and be among the grateful."
(خدا نے) فرمایا موسیٰ میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے۔ تو جو میں نے تم کو عطا کیا ہے اسے پکڑ رکھو اور (میرا) شکر بجالاؤ
[قَالَ: کہا] [يٰمُوْسٰٓي: اے موسی] [اِنِّى: بیشک میں] [اصْطَفَيْتُكَ: میں نے تجھے چن لیا] [عَلَي: پر] [النَّاسِ: لوگ] [بِرِسٰلٰتِيْ: اپنے پیغام (جمع)] [وَبِكَلَامِيْ: اور اپنے کلام سے] [فَخُذْ: پس پکڑ لے] [مَآ اٰتَيْتُكَ: جو میں نے تجھے دیا] [وَكُنْ: اور رہو] [مِّنَ: سے] [الشّٰكِرِيْنَ: شکر گزار (جمع)]
انبیاء کی فضیلت پر ایک تبصرہ
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جناب باری فرماتا ہے کہ دوہری نعمت آپ کو عطا ہوئی یعنی رسالت اور ہم کلامی ۔ مگر چونکہ ہمارے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام اول و آخر نبیوں کے سردار ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے رسالت ختم کرنے والا آپ کو بنایا کہ قیامت تک آپ ہی کی شریعت جاری رہے گی اور تمام انبیاء اور رسولوں سے آپ کے تابعدار تعداد میں زیادہ ہوں گے فضیلت کے اعتبار سے آپ کے بعد سب سے افضل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں جو خلیل اللہ تھے ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں جو کلیم اللہ تھے ۔ اے موسیٰ جو مناجات اور کلام تجھے میں نے دیا ہے وہ لے لے اور مضبوطی سے اس پر استقامت رکھ اور اس پر جتنا تجھ سے ہو سکے شکر بجا لایا کر ۔ کہا گیا ہے کہ تورات کی تختیاں جواہر کی تھیں اور ان میں اللہ تعالیٰ نے تمام احکام حلال حرام کے تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے تھے ان ہی تختیوں میں تورات تھی جس کے متعلق فرمان ہے کہ اگلے لوگوں کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ کو لوگوں کی ہدایت کے لئے کتاب عطا فرمائی۔ یہ بھی مروی ہے کہ تورات سے پہلے یہ تختیاں ملی تھیں واللہ اعلم ۔ الغرض دیدار الٰہی جس کی تمنا آپ نے کی تھی اس کے عوض یہ چیز آپ کو ملی۔ کہا گیا اسے ماننے کے ارادے سے لے لو اور اپنی قوم کو ان اچھائیوں پر عمل کرنے کی ہدایت کرو ۔ آپ کو زیادہ تاکید ہوئی اور قوم کو ان سے کم ۔ تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری حکم عدولی کرنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے؟ جیسے کوئی کسی کو دھمکاتے ہوئے کہے کہ تم میری مخالفت انجام بھی دیکھ لو گے ۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں شام کے بدکاروں کے گھروں کا مالک بنا دوں گا یا مراد اس سے فرعونیوں کا ترکہ ہو ۔ لیکن پہلی بات ہی زیادہ ٹھیک معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ فرمان تیہ کے میدان سے پہلے اور فرعون سے نجات پا لینے کے بعد کا ہے ۔ واللہ اعلم ۔