Alif, Lam, Meem, Sad.
المص
[الۗمّۗصۗ : المص]
اس سورت کی ابتداء میں جو حروف ہیں ، ان کے متعلق جو کچھ بیان ہمیں کرنا تھا، اسے تفصیل کے ساتھ سورۃ بقرہ کی تفسیر کے شروع میں مع اختلاف علماء کے ہم لکھ آئے ہیں ۔ ابن عباس سے اس کے معنی میں مروی ہے کہ اس سے مراد حدیث ( انا اللہ افضل) ہے یعنی میں اللہ ہوں میں تفصیل وار بیان فرما رہا ہوں، سعید بن جبیر سے بھی یہ مروی ہے ، یہ کتاب قرآن کریم تیری جانب تیرے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے ، اسمیں کوئی شک نہ کرنا ، دل تنگ نہ ہونا ، اس کے پہنچانے میں کسی سے نہ ڈرنا، نہ کسی کا لحاظ کرنا، بلکہ سابقہ اولوالعزم پیغمبروں کی طرح صبرو استقامت کے ساتھ کلام اللہ کی تبلیغ مخلوق الٰہی میں کرنا، اس کا نزول اس لئے ہوا ہے کہ تو کافروں کو ڈرا کر ہوشیار اور چوکنا کر دے، یہ قرآن مومنوں کیلئے نصیحت و عبرت وعظ و پند ہے ۔ اس کے بعد تمام دنیا کو حکم ہوتا ہے کہ اس نبی امی کی پوری پیروی کرو ، اس کے قدم بہ قدم چلو ، یہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا ہے ، کلام اللہ تمہارے پاس لایا ہے وہ اللہ تم سب کا خالق مالک ہے اور تمام جان داروں کا رب ہے ، خبردار ہرگز ہرگز نبی سے ہٹ کر دوسرے کی تابعداری نہ کرانا ورنہ حکم عدولی پر سزا ملے گی ، افسوس تم بہت ہی کم نصیحت حاصل کرتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے کہ گو تم چاہو لیکن اکثر لوگ اپنی بےایمانی پر اڑے ہی رہیں گے ۔ اور آیت میں ہے (وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَاِنْ هُمْ اِلَّا يَخْرُصُوْنَ 116) 6- الانعام) یعنی " اگر تو انسانوں کی کثرت کی طرف جھک جائے گا تو وہ تجھے بہکا کر ہی چین لیں گے" ۔ سورۃ یوسف میں فرمان ہے" اکثر لوگ اللہ کو مانتے ہوئے بھی شرک سے باز نہیں رہتے ۔ "