وَ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰہِیۡمُ لِاَبِیۡہِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصۡنَامًا اٰلِہَۃً ۚ اِنِّیۡۤ اَرٰىکَ وَ قَوۡمَکَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۷۴﴾

(74 - الانعام)

Qari:


And [mention, O Muhammad], when Abraham said to his father Azar, "Do you take idols as deities? Indeed, I see you and your people to be in manifest error."

اور (وہ وقت بھی یاد کرنے کے لائق ہے) جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کہ تم بتوں کو کیا معبود بناتے ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ تم اور تمہاری قوم صریح گمراہی میں ہو

[وَاِذْ: اور جب] [قَالَ: کہا] [اِبْرٰهِيْمُ: ابراہیم] [لِاَبِيْهِ: اپنے باپ کو] [اٰزَرَ: آزر] [اَتَتَّخِذُ: کیا تو بناتا ہے] [اَصْنَامًا: بت (جمع)] [اٰلِهَةً: معبود] [اِنِّىْٓ: بیشک میں] [اَرٰىكَ: تجھے دیکھتا ہوں] [وَقَوْمَكَ: اور تیری قوم] [فِيْ ضَلٰلٍ: گمراہی] [مُّبِيْنٍ: کھلی]

Tafseer / Commentary

ابراہیم علیہ السلام اور آزر میں مکالمہ
حضرت عباس کا قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہم السلام کے والد کا نام آزر نہ تھا بلکہ تارخ تھا۔ آزر سے مراد بت ہے۔ آپ کی والدہ کا نام مثلے تھا آپ کی بیوی صاحبہ کا نام سارہ تھا۔ حضرت اسماعیل کی والدہ کا نام ہاجرہ تھا یہ حضرت ابراہیم کی سریہ تھیں۔ علماء نسب میں سے اوروں کا بھی قول ہے کہ آپ کے والد کا نام تارخ تھا۔ مجاہد اور سدی فرماتے ہیں آزر اس بت کا نام تھا جس کے پجاری اور خادم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے والد تھے ہو سکتا ہے کہ اس بت کے نام کی وجہ سے انہیں بھی اسی نام سے یاد کیا جاتا ہو اور یہی نام مشہور ہو گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ آزر کا لفظ ان میں بطور عیب گیری کے استعمال کیا جاتا تھا اس کے معنی ٹیڑھے آدمی کے ہیں۔ لیکن اس کلام کی سند نہیں نہ امام صاحب نے اسے کسی سے نقل کیا ہے۔
سلیمانؒ کا قول ہے کہ اس کے معنی ٹیڑھے پن کے ہیں اور یہی سب سے سخت لفظ ہے جو خلیل اللہ کی زبان سے نکلا۔ ابن جریر کا فرمان ہے کہ ٹھیک بات یہی ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا نام آزر تھا اور یہ جو عام تاریخ داں کہتے ہیں کہ ان کا نام تارخ تھا اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے دونوں نام ہوں یا ایک تو نام ہو اور دوسرا لقب ہو۔ بات تو یہ ٹھیک اور نہایت قوی ہے واللہ اعلم۔ «‏‏‏‏آزَر» اور «آزُر» دونوں قرأتیں ہیں پچھلی قرأت یعنی راء کے زبر کے ساتھ تو جمہور کی ہے۔ پیش والی قرأت میں ندا کی وجہ سے پیش ہے اور زبر والی قرأت لابیہ سے بدل ہونے کی ہے اور ممکن ہے کہ عطف بیان ہو اور یہی زیادہ مشابہ ہے۔ یہ لفظ علمیت اور عجمیت کی بنا پر غیر منصرف ہے بعض لوگ اسے صفت بتلاتے ہیں اس بنا پر بھی یہ غیر منصرف رہے گا جیسے احمر اور اسود۔
بعض اسے «اَتَتِخِّـذْ» کا معمول مان کر منصوب کہتے ہیں۔ گویا حضرت ابراہیمؑ یوں فرماتے کہ اے باپ، کیا آپ آزر بت کو معبود مانتے ہیں؟ لیکن یہ دور کی بات ہے۔ خلاف لغت ہے کیونکہ حرف اتفہام کے بعد الا پنے سے پہلے میں عامل نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اس کے لئے ابتداء کلام کا حق ہے۔ عربی کا یہ تو مشہور قاعدہ ہے۔ الغرض حضرت ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام اپنے باپ کو وعظ سنا رہے ہیں اور انہیں بت پرستی سے روک رہے ہیں لیکن وہ باز نہ آئے۔آیت میں ہے کہ «وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ عَصِيًّا يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا قَالَ أَرَاغِبٌ أَنتَ عَنْ آلِهَتِي يَا إِبْرَاهِيمُ ۖ لَئِن لَّمْ تَنتَهِ لَأَرْجُمَنَّكَ ۖ وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا قَالَ سَلَامٌ عَلَيْكَ ۖ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا وَأَعْتَزِلُكُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَأَدْعُو رَبِّي عَسَىٰ أَلَّا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا» (19-مريم: 41 - 48) آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ تو نہایت بری بات ہے کہ تم ایک بت کے سامنے الحاج اور عاجزی کرو جو اللہ کا حق ہے۔ یقیناً اس مسلک کے لوگ سب کے سب بہکے ہوئے اور راہ بھٹکے ہوئے ہیں اور آیت میں کہ صدیق نبی ابراھیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنے والد سے فرمایا، ابا آپ ان کی پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں نہ کچھ فائدہ پہنچائیں۔ ابا میں آپ کو وہ کھری بات سناتا ہوں جو اب تک آپ کے علم میں نہیں آئی تھی۔ اپ میری بات مان لیجئے۔ میں آپ کو صھیح راہ کی رہنمائی کروں گا۔ ابا شیطان کی عبادت سے ہٹ جائیے۔ وہ تو رحمٰن کا نافرمان ہے۔ ابا مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو آپ پر اللہ کا کوئی عذاب آجائے اور آپ شیطان کے رفیق کار بن جائیں۔باپ نے جواب دیا کہ ابراھیم کیا تو میرے معبودوں سے ناراض ہے؟ سن اگر تو اس سے باز نہ آیا تو میں تجھے سنگسار کر دوں گا۔ پس اب تو مجھ سے الگ ہوجا۔ آپ نے فرمایا، اچھا میرا سلام لو۔ میں اب بھی اپنے پروردگار سے تمہاری معافی کی درخواست کروں گا۔ وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔ میں تم سب کو اور تمہارے ان معبودوں کو جو اللہ کے سوا ہیں، چھوڑتا ہوں۔ اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہوں۔ ناممکن ہے کہ میں اسکی عبادت بھی کرون اور پھر بے نصیب اور خالی ہاتھ رہوں۔ چنانچہ حسبِ وعدہ خلیل اللہؑ اپنے والد کی زندگی تک استغفار کرتے رہے لیکن جبکہ مرتے ہوئے بھی وہ شرک سے باز نہ آئے تو آپ نے استغفار بند کردیا اور بیزار ہوگئے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے «وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِيمَ لاًّبِيهِ إِلاَّ عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَآ إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَهِيمَ لأَوَّاهٌ حَلِيمٌ» (9-التوبہ:114) حضرت ابراھیمؑ کا پنے باپ کے لئے استغفار کرنا ایک وعدے کی بناء پر تھا۔پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے محض بےتعلق ہوگئے و اقعی ابراہیم ؑ بڑے نرم دل اور بردبار تھے۔حدیث صحیح میں ہے: قیامت کے رو ز حضرت ابراہیمؑ اپنے باپ سے ملیں گے تو آزر ان سے کہے گا اے بیٹے! آج میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گاتو ابراہیمؑ اپنے رب سے عرض کریں گے کہ اے رب! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہ فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن ذلیل نہ کرے گا۔ اورآج میرلئے اس سے بڑی اور کونسی رسوائی ہو سکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے تو ارشاد فرمایا جائے گا کہ اے ابراہیم تم اپنے پیچھےدیکھوتو وہ اپنے باپ کو دیکھنے کی بجائے ایک بجو کو دیکھیں گے۔ جو کیچڑ میں لتھڑاہوا ہےاور اس کی ٹانگیں پکڑ کر اس کو دوزخ کی طرف کھینچ کر لے جایا جا رہا ہے۔مخلوق کو دیکھ کر خالق کی وحدانیت سمجھ میں آجائے اس لئے ہم نے ابراھیمؑ کو آسمان و زمین کی مخلوق دکھادی جسے اور آیت میں ہے «أَوَلَمْ يَنظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ» (7-الاعراف:185) اور جگہ ہے «أَفَلَمْ يَرَوْا إِلَىٰ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ ۚ إِن نَّشَأْ نَخْسِفْ بِهِمُ الْأَرْضَ أَوْ نُسْقِطْ عَلَيْهِمْ كِسَفًا مِّنَ السَّمَاءِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ» ‏‏‏‏(34-السبا:9)۔یعنی کیا پس وہ اپنے آگے پیچھے آسمان و زمین کو دیکھ نہیں رہے ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو انہیں زمین میں دھنسا دیں یا ان پر آسمان کے ٹکڑے گرا دیں یقیناً اس میں پوری دلیل ہے ہر اس بندے کے لئے جو (دل سے) متوجہ ہو۔‏
لیکن ملکوت کے بارے میں ابن جریرؒ نے بیان کیا ہے کہ ابراہیمؑ کی نگاہوں کے سامنے آسمان پھٹ گئے تھے اور ابراہیمؑ آسمان کی سب چیزوں کو دیکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ ان کی نظر عرش تک پہنچی اور ساتوں زمینیں ان کے لئے کھل گئیں اور وہ زمین کے اندر کی چیزیں دیکھنے لگے۔ بعض نے اس مضمون کا کا بھی اضافہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کے معاص کو بھی دیکھنے لگے تھے اور ان گنہگاروں پر بد دعا کرنے لگے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں اے ابراہیم میں تم سے زیادہ اپنے بندوں پر کریم ہوں’ کیا عجب کہ بعد کو وہ توبہ کر لیں اور رجوع کر لیں۔ ابن عباسؓؓ اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو اپنی قدرت سے آسمان و زمین کی چھپی ہوئی اور علانیہ ساری چیزیں دکھلا دیں’ ان میں کچھ بھی چھپا نہ رہا۔ اور جب وہ اصحاب گناہ پر لعن کر رہے تھے تو فرمایا کہ ایسا نہیں اور ان کی بد دعا کو رد کر دیا۔ پھر وہ حسب سابق ہو گئے۔اس لئے محتمل ہے کہ ان کی نگاہوں پر سے پردہ ہٹ گیا ہو جہاں ان کے لئے عیاں ہو گیا ہو۔ اور یہ بھی محتمل ہے کہ اس کو دل کی آنکھوں سے دیکھا ہو۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کی حکمت باہرہ اور دلالت قاطعہ کو معلوم کر لیا ہو۔ جیسا کہ امام احمدؒ اور امام ترمذیؒ سے مروی ہے: عالم خواب میں اللہ تعالیٰ ایک بہترین شکل میں میرے پاس آیا اور فرمانے لگا اے محمد املا اعلیٰ میں کیا بحث ہو رہی ہے؟ میں نے کہا یا رب میں نہیں جانتا تو اس نے اپنا ہاتھ میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا کہ اس کی انگلیوں کی ٹھنڈک میں پنے سینے میں پانے لگا۔ پھر تو تمام چیزیں میرے سامنے کھل گئیں اور میں نے اسے پہچان لیا «وَلِيَكُونَ مِنَ الْمُوقِنِينَ» کا واؤ زائد ہے۔ اس کی تقدیر یوں ہوئی کہ «وَكَذَٲلِكَ نُرِىٓ إِبۡرَٲهِيمَ مَلَكُوتَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ لِيَكُونَ مِنَ ٱلۡمُوقِنِينَ» (6-الانعام:75) یعنی بغیر واؤ کے جیسے کہ اس آیت «‏‏‏‏وَكَذَٲلِكَ نُفَصِّلُ ٱلۡأَيَـٰتِ وَلِتَسۡتَبِينَ سَبِيلُ ٱلۡمُجۡرِمِينَ» ‏‏‏‏ (6-الانعام:55) میں۔ اس میں «ٱلۡأَيَـٰتِ» ‏‏‏‏ کے بعد واؤ زائد ہے اوریہ بھی کہا گیا ہے کہ زائد نہیں ہے بلکہ سابقہ بات کی بنیاد پر بات کو اٹھایا گیا ہے۔ یعنی ہم نے اس پر ملکوت ظاہر کر دیا تا ک وہ دیکھے اور یقین بھی کر لے۔یہ سب بطور مناظرہ کے تھا۔ابن عباسؓؓ سے دوسری بات ہی مروی ہے۔
ابن جریؒر میں بھی اسی کو پسند کیا گیا ہے اس کی دلیل میں آپ کا یہ قول لاتے ہیں کہ اگر مجھے میرا رب ہدایت نہ کرتا تو میں گمراہ میں ہو جاتا۔ امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمبا قصہ نقل کیا ہے جس میں ہے: نمرود بن کنعان بادشاہ سے یہ کہا گیا تھا کہ ایک بچہ پیدا ہونے والا ہے جس کے ہاتھوں تیرا تخت تارج ہو گا تو اس نے حکم دے دیا تھا کہ اس سال میری مملکت میں جتنے بچے پیدا ہوں سب قتل کر دیئے جائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے جب یہ سنا تو کجھ وقت قبل شہر کے باہر ایک غار میں چلی گئیں، وہیں حضرت خلیل اللہ پیدا ہوئے، تو جب آپ اس غار سے باہر نکلے تب آپ نے یہ سب فرمایا تھا جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے، بالکل صحیح بات یہ ہے کہ یہ گفتگو اللہ کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مناظرانہ تھی اپنی قوم کی باطل پرستی کا احوال اللہ کو سمجھا رہے تھے، اول تو آپ نے اپنے والد کی خطا ظاہر کی کہ وہ زمین کے ان بتوں کی پوجا کرتے تھے جنہیں انہوں نے فرشتوں وغیرہ کی شکل پر بنا لیا تھا اور جنہیں وہ سفارشی سمجھ رہے تھے۔ یہ لوگ بزعم خود اپنے آپ کو اس قابل نہیں جانتے تھے کہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں۔ اس لئے بطور وسیلے کے فرشتوں کو پوجتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ان کے بارےمیں کہہ سن کر ان کی روزی وغیرہ بڑھوا دیں اور ان کی حاجتیں پوری کرا دیں پھر جن آسمانی چیزوں کو یہ پوجتے تھے ان میں ان کی خطا بیان کی۔ یہ ستارہ پرست بھی تھے ساتوں ستاروں کو جو چلنے پھرنے والے ہیں۔ پوجتے تھے، چاند، عطارد، زہرہ، سورج، مریخ، مستری، زحل۔ ان کے نزدیک سب سے زیادہ روشن سورج ہے، پھر چاند پھر زہرہ پس آپ نے ادنیٰ سے شروع کیا اور اعلیٰ تک لے گئے۔پہلے تو زہرہ کی نسبت فرمایا کہ وہ پوجا کے قابل نہیں کیونکہ یہ دوسرے کے قابو میں ہیں یہ مقررہ چال سے چلتا اور مقررہ جگہ پر چلتا ہے دائیں بائیں ذرا بھی کھسک نہیں سکتا۔ تو جبکہ وہ خود بیشمار چیزوں میں سے ایک چیز ہے۔ اس میں روشنی بھی اللہ کی دی ہوئی ہے یہ مشرق سے نکلتا ہے پھر چلتا پھرتا رہتا ہے اور ڈوب جاتا ہےپھر دوسری رات اسی طرح ظاہر ہوتا ہے تو ایسی چیز معبود ہونے کی صلاحیت کیا رکھتی ہے؟
پھر اس سے زیادہ روشن چیز یعنی چاند کو دیکھتے ہیں اور اس کو بھی عبادت کے قابل نہ ہونا ظاہر فرما کر پھر سورج کو لیا اور اس کی مجبوری اور اس کی غلامی اور مسکینی کا اظہار کیا اور کہا کہ لوگو میں تمہارے ان شرکاء سے، ان کی عبادت سے، ان کی عقیدت سے، ان کی محبت سے دور ہوں۔ سنو اگر یہ سچے معبود ہیں اور کچھ قدرت رکھتے ہیں تو ان سب کو ملا لو اور جو تم سب سے ہو سکے میرے خلاف کر لو۔ میں تو اس اللہ کا عابد ہوں جو ان مصنوعات کا صانع جو ان مخلوقات کا خالق ہے جو ہر چیز کا مالک رب اور سچا معبود ہے جیسے قرآنی ارشاد ہے: « إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَمَـوَتِ وَالاٌّرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِى الَّيْلَ النَّهَارَ يَطْلُبُهُ حَثِيثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَتٍ بِأَمْرِهِ أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالاٌّمْرُ تَبَارَكَ اللَّهُ رَبُّ الْعَـلَمِينَ» (7-الاعراف:54) تمہارا رب صرف وہی ہے جس نے چھ دن میں آسمان و زمین کو پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا رات کو دن سے دن کو رات سے ڈھانپتا ہے ایک دوسرے کے برابر پیچھے جا آ رہا ہے سورج چاند اور تارے سب اس کے فرمان کے تحت ہیں خلق و امر اسی کی ملکیت میں ہیں وہ رب العالمین ہے بڑی برکتوں والا ہے، یہ تو بالکل ناممکن سا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ سلام کے یہ سب فرمان بطور واقعہ کے ہوں اور حقیقت میں آپ اللہ کو پہچانتے ہی نہ ہوں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: « وَلَقَدْ ءَاتَيْنَآ إِبْرَهِيمَ رُشْدَهُ مِن قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَـلِمِينَ ـ إِذْ قَالَ لاًّبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَـذِهِ التَّمَـثِيلُ الَّتِى أَنتُمْ لَهَا عَـكِفُونَ» (21-الأنبياء:51،52) ہم نے پہلے سے حضرت ابراہیم کو سیدھا راستہ دے دیا تھا اور ہم اس سے خوب واقف تھے جبکہ اس نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے فرمایا یہ صورتیں کیا ہیں جن کی تم پرستش اور مجاورت کر رہے ہو؟ اور آیت میں ہے: « إِنَّ إِبۡرَٲهِيمَ كَانَ أُمَّةً۬ قَانِتً۬ا لِّلَّهِ حَنِيفً۬ا وَلَمۡ يَكُ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ ـ شَاڪِرً۬ا لِّأَنۡعُمِهِ‌ۚ ٱجۡتَبَٮٰهُ وَهَدَٮٰهُ إِلَىٰ صِرَٲطٍ۬ مُّسۡتَقِيمٍ۬ ـ وَءَاتَيۡنَـٰهُ فِى ٱلدُّنۡيَا حَسَنَةً۬‌ۖ وَإِنَّهُ ۥ فِى ٱلۡأَخِرَةِ لَمِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ ـ ثُمَّ أَوۡحَيۡنَآ إِلَيۡكَ أَنِ ٱتَّبِعۡ مِلَّةَ إِبۡرَٲهِيمَ حَنِيفً۬ا‌ۖ وَمَا كَانَ مِنَ ٱلۡمُشۡرِڪِينَ» ‏‏‏‏ (16-النحل:120-123) بیشک ابراہیم پیشوا اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور ایک طرفہ مخلص تھے۔ وہ مشرکوں میں نہ تھے۔‏ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے، اللہ نے انہیں اپنا برگزیدہ کر لیا تھا اور انہیں راہ راست سمجھا دی تھی۔‏ ہم نے اس دنیا میں بھی بہتری دی تھی اور بیشک وہ آخرت میں بھی نیکوکاروں میں ہیں۔‏ پھر ہم نے آپ کی جانب وحی بھیجی کہ آپ ملت ابراہیم حنیف کی پیروی کریں، جو مشرکوں میں سے نہ تھے۔‏
بخاری و مسلم میں ہے، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے بندوں کو موحد پیدا کیا ہے۔ کتاب اللہ میں ہے: « فِطۡرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيۡہَا‌ۚ لَا تَبۡدِيلَ لِخَلۡقِ ٱللَّهِ‌ۚ» ‏‏‏‏ (30-الروم:30) اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو فطرت اللہ پر پیدا کیا ہے، اللہ کی خلق کی تبدیلی نہیں اور آیت میں ہے: « وَإِذۡ أَخَذَ رَبُّكَ مِنۢ بَنِىٓ ءَادَمَ مِن ظُهُورِهِمۡ ذُرِّيَّتَہُمۡ وَأَشۡہَدَهُمۡ عَلَىٰٓ أَنفُسِہِمۡ أَلَسۡتُ بِرَبِّكُمۡ‌ۖ قَالُواْ بَلَىٰ‌ۛ شَهِدۡنَآ‌ۛ» ‏‏‏‏ (7-الاعراف:172) اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔ پس یہی فطرت اللہ ہے جیسے کہ اس کا ثبوت عنقریب آئے گا ان شاء اللہ پس جبکہ تمام مخلوق کی پیدائش دین اسلام پر اللہ کی سچی توحید پر ہے تو ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جن کی توحید اور اللہ پرستی کا ثنا خواں خود کلام رحمٰن ہے ان کی نسبت کون کہہ سکتا ہے کہ آپ اللہ جل شانہ سے آگاہ نہ تھے اور کبھی تارے کو اور کبھی چاند سورج کو اپنا اللہ سمجھ رہے تھے۔ نہیں نہیں آپ کی فطرت سالم تھی آپ کی عقل صحیح تھی آپ اللہ کے سچے دین پر اور خالص توحید پر تھے۔ آپ کا یہ تمام کلام بحیثیت مناظرہ تھا اور اس کی زبر دست دلیل اس کے بعد کی آیت ہے۔

Select your favorite tafseer