اِذۡ قَالَتِ امۡرَاَتُ عِمۡرٰنَ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۵﴾

(35 - آل عمران)

Qari:


[Mention, O Muhammad], when the wife of 'Imran said, "My Lord, indeed I have pledged to You what is in my womb, consecrated [for Your service], so accept this from me. Indeed, You are the Hearing, the Knowing."

(وہ وقت یاد کرنے کے لائق ہے) جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے پروردگار جو (بچہ) میرے پیٹ میں ہے میں اس کو تیری نذر کرتی ہوں اسے دنیا کے کاموں سے آزاد رکھوں گی تو (اسے) میری طرف سے قبول فرما توتو سننے والا (اور) جاننے والا ہے

[اِذْ: جب] [قَالَتِ: کہا] [امْرَاَتُ عِمْرٰنَ: بی بی عمران] [رَبِّ: اے میرے رب] [اِنِّىْ: بیشک میں] [نَذَرْتُ: میں نے نذر کیا] [لَكَ: تیرے لیے] [مَا: جو] [فِيْ بَطْنِىْ: میرے پیٹ میں] [مُحَرَّرًا: آزاد کیا ہوا] [فَتَقَبَّلْ: سو تو قبول کرلے] [مِنِّىْ: مجھ سے] [اِنَّكَ: بیشک تو] [اَنْتَ: تو] [السَّمِيْعُ: سننے والا] [الْعَلِيْمُ: جاننے والا]

Tafseer / Commentary

مریم بنت عمران
حضرت عمران کی بیوی صاحبہ کا نام حسنہ بنت فاقوذ تھا حضرت مریم علیہما السلام کی والدہ تھیں حضرت محمد اسحاق فرماتے ہیں انہیں اولاد نہیں ہوتی تھی ایک دن ایک چڑیا کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو چوغہ دے رہی ہے تو انہیں ولولہ اٹھا اور اللہ تعالیٰ سے اسی وقت دعا کی اور خلوص کے ساتھ اللہ کو پکارا، اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی دعا قبول فرما لی اور اسی رات انہیں حمل ٹھہر گیا جب حمل کا یقین ہو گیا تو نذر مانی کہ اللہ تعالیٰ مجھے جو اولاد دے گا اسے بیت المقدس کی خدمت کے لئے اللہ کے نام پر آزاد کر دوں گی، پھر اللہ سے دعا کی کہ پروردگار تو میری اس مخلصانہ نذر کو قبول فرما تو میری دعا کو سن رہا ہے اور تو میری نیت کو بھی خوب جان رہا ہے، اب یہ معلوم نہ تھا لڑکا ہو گا یا لڑکی جب پیدا ہوا تو دیکھا کہ وہ لڑکی ہے اور لڑکی تو اس قابل نہیں کہ وہ مسجد مقدس کی خدمت انجام دے سکے اس کے لئے تو لڑکا ہونا چاہئے تو عاجزی کے طور پر اپنی مجبوری جناب باری میں ظاہر کی کہ اے اللہ میں تو اسے تیرے نام پر وقف کر چکی تھی لیکن مجھے تو لڑکی ہوئی ہے ، واللہ اعلم بما وضعت بھی پڑھا گیا یعنی یہ قول بھی حضرت حسنہ کا تھا کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میرے ہاں لڑکی ہوئی اور "تا" کے جزم کے ساتھ بھی آیا ہے، یعنی اللہ کا یہ فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے، اور فرماتی ہے کہ مرد عورت برابر نہیں، میں اس کا نام مریم رکھتی ہوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس دن بچہ ہوا اسی دن نام رکھنا بھی جائز ہے، کیونکہ ہم سے پہلے لوگوں کی شریعت ہماری شریعت ہے اور یہاں یہ بیان کیا گیا اور تردید نہیں کی گئی بلکہ اسے ثابت اور مقرر رکھا گیا، اسی طرح حدیث شریف میں بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج رات میرے ہاں لڑکا ہوا اور میں نے اس کا نام اپنے باپ حضرت ابراہیم کے نام پر ابراہیم رکھا ملاحظہ ہو بخاری مسلم، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے بھائی کو جبکہ وہ تولد ہوئے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور ان کا نام عبداللہ رکھا، یہ حدیث بھی بخاری و مسلم میں موجود ہے ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے آکر کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں رات کو بچہ ہوا ہے کیا نام رکھوں؟ فرمایا عبدالرحمن نام رکھو (بخاری) ایک اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں بچہ ہوا جسے لے کر آپ حاضر خدمت نبوی ہوئے تاکہ آپ اپنے دست مبارک سے اس بچے کو گھٹی دیں آپ اور طرف متوجہ ہوگئے بچہ کا خیال نہ رہا۔ حضرت ابو اسید نے بچے کو واپس گھر بھیج دیا جب آپ فارغ ہوئے بچے کی طرف نظر ڈالی تو اسے نہ پایا گھبرا کر پوچھا اور معلوم کر کے کہا اس کا نام منذر رکھو (یعنی ڈرا دینے والا) مسند احمد اور سنن میں ایک اور حدیث مروی ہے جسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ اپنے عقیقہ میں گروی ہے ساتویں دن عقیقہ کرے یعنی جانور ذبح کرے اور نام رکھے، اور بچہ کا سر منڈوائے، ایک روایت میں ہے اور خون بہایا جائے اور یہ زیادہ ثبوت والی اور زیادہ حفظ والی روایت ہے واللہ اعلم، لیکن زبیر بن بکار کی روایت جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا عقیقہ کیا اور نام ابراہیم رکھا یہ حدیث سنداً ثابت نہیں اور صحیح حدیث اس کے خلاف موجود ہے اور یہ تطبیق بھی ہو سکتی ہے کہ اس نام کی شہرت اس دن ہوئی واللہ اعلم۔ حضرت مریم علیہما السلام کی اس دعا کو قبول فرمایا، چنانچہ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر بچے کو شیطان اس کی پیدائش کے وقت ٹہوکا دیتا ہے اسی سے وہ چیخ کر رونے لگتا ہے لیکن حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ اس سے بچے رہے، اس حدیث کو بیان فرما کر حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں اگر تم چاہو تو اس آیت کو پڑھ لو آیت (وَاِنِّىْٓ اُعِيْذُھَابِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ) 3۔آل عمران:36) یہ حدیث بخاری مسلم میں بھی موجود ہے، یہ حدیث اور بھی بہت سی کتابوں میں مختلف الفاظ سے مروی ہے کسی میں ہے ایک یا دو دھچکے مارتا ہے، ایک حدیث میں صرف عیسیٰ کا ہی ذکر ہے کہ شیطان نے انہیں بھی دھچکا مارنا چاہا لیکن انہیں دیا ہوا ٹہوکا پردے میں لگ کر رہ گیا۔

Select your favorite tafseer