Qari: |
Would you not fight a people who broke their oaths and determined to expel the Messenger, and they had begun [the attack upon] you the first time? Do you fear them? But Allah has more right that you should fear Him, if you are [truly] believers.
بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر (خدا) کے جلا وطن کرنے کا عزم مصمم کر لیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتدا کی۔ کیا تم ایسے لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنے کے لائق خدا ہے بشرطیکہ ایمان رکھتے ہو
[اَلَا تُقَاتِلُوْنَ: کیا تم نہ لڑوگے] [قَوْمًا: ایسی قوم] [نَّكَثُوْٓا: انہوں نے توڑ ڈالا] [اَيْمَانَهُمْ: اپنا عہد] [وَهَمُّوْا: اور ارادہ کیا] [بِاِخْرَاجِ: نکالنے کا] [الرَّسُوْلِ: رسول] [وَهُمْ: اور وہ] [بَدَءُوْكُمْ: تم سے پہل کی] [اَوَّلَ مَرَّةٍ: پہلی بار] [اَتَخْشَوْنَهُمْ: کیا تم ان سے ڈرتے ہو] [فَاللّٰهُ: تو اللہ] [اَحَقُّ: زیادہ حقدار] [اَنْ: کہ] [تَخْشَوْهُ: تم اس سے ڈرو] [اِنْ كُنْتُمْ: اگر تم ہو] [مُّؤْمِنِيْنَ: ایمان والے]
ظالموں کو ان کے کیفر کردار کو پہنچاؤ
مسلمانوں کو پوری طرح جہاد پر آمادہ کرنے کے لیے فرما رہا ہے کہ یہ وعدہ شکن قسمیں توڑنے والے کفار وہی ہیں جنہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جلا وطن کرنے کی پوری ٹھان لی تھی چاہتے تھے کہ قید کرلیں یا قتل کر ڈالیں یا دیس نکالا دے دیں ان کے مکر سے اللہ کا مکر کہیں بہتر تھا۔ صرف ایمان کی بناء پر دشمنی کر کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور مومنوں کو وطن سے خارج کر تے رھے بھڑ بھڑا کر اٹھ کھڑے ہوتے تھے تاکہ تجھے مکہ شریف سے نکال دیں ۔ برائی کی ابتداء بھی انہیں کی طرف سے ہے بدر کے دن لشکر لے کر نکلے حالانکہ معلوم ہو چکا تھا کہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے لیکن تاہم غرور و فخر سے اللہ کے لشکر کو شکست دینے کے ارادے سے مسلمانوں سے صف آراء ہوگئے جیسے کہ پورا واقع اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔ انہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے حلیفوں کے ساتھ مل کر رسول اللہ کے حلیفوں سے جنگ کی۔ بنو بکر کی خزاعہ کے خلاف مدد کی اس خلاف وعدہ کی وجہ سے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان پر لشکر کشی کی ان کی خوب سرکوبی کی اور مکہ فتح کر لیا فالحمدللہ۔ فرماتا ہے کہ تم ان نجس لوگوں سے خوف کھاتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو تمہارے دل میں بجز اللہ کے کسی کا خوف نہ ہونا چاہیئے وہی اس لائق ہے کہ اس سے ایماندار ڈرتے رہیں دوسری آیت میں ہے ان سے نہ ڈرو صرف مجھ سے ہی ڈرتے رہو میرا غلبہ ، میری سلطنت میری سزاء، میری قدرت ، میری ملکیت، بیشک اس قابل ہے کہ ہر وقت ہر دل میری ہیبت سے لزرتا رہے تمام کام میرے ہاتھ میں ہیں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور کر گذرتا ہوں ۔ میری منشا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں پر جہاد کی فرضیت کا راز بیان ہو رہا ہے کہ اللہ قادر تھا جو عذاب چاہتا ان پر بھیج دیتا لیکن اس کی منشاء یہ ہے کہ تمہارے ہاتھوں انہیں سزا دے ان کی بربادی تم خود کرو تمہارے دل کی خود بھڑاس نکل جائے اور تمہیں راحت و آرام شادمانی و کامرانی حاصل ہو ۔ یہ بات کچھ انہیں کے ساتھ مخصوص نہ تھی بلکہ تمام مومنوں کے لیے بھی ہے ۔ خصوصاً خزاعہ کا قبیلہ جن پر خلاف عہد قریش اپنے حلیفوں میں مل کر چڑھ دوڑے ان کے دل اسی وقت ٹھنڈے ہوں گے ان کے غبار اسی وقت بیٹھیں گے جب مسلمانوں کے ہاتھوں کفار نیچے ہوں ابن عساکر میں ہے کہ جب حضرت عائشہ (رض) غضبناک ہوتیں تو آپ ان کی ناک پکڑ لیتے اور فرماتے اے عویش یہ دعا کرو اللھم رب النبی محمد اغفر ذنبی اذھب غیظ قلبی واجرنی من مضلات الفتن اے اللہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پروردگار میرے گناہ بخش اور میرے دل کا غصہ دور کر اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے۔ اللہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہے توبہ قبول فرما لے۔ وہ اپنے بندوں کی تمام تر مصلحتوں سے خوب آگاہ ہے۔ اپنے تمام کاموں میں اپنے شرعی احکام میں اپنے تمام حکموں میں حکمت والا ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم دیتا ہے وہ عادل و حاکم ہے ظلم سے پاک ہے ایک ذرے برابر بھلائی برائی ضائع نہیں کرتا بلکہ اس کا بدلہ دنیا اور آخرت میں دیتا ہے۔