Qari: |
Men are in charge of women by [right of] what Allah has given one over the other and what they spend [for maintenance] from their wealth. So righteous women are devoutly obedient, guarding in [the husband's] absence what Allah would have them guard. But those [wives] from whom you fear arrogance - [first] advise them; [then if they persist], forsake them in bed; and [finally], strike them. But if they obey you [once more], seek no means against them. Indeed, Allah is ever Exalted and Grand.
مرد عورتوں پر مسلط وحاکم ہیں اس لئے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک خدا سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
[اَلرِّجَالُ: مرد] [قَوّٰمُوْنَ: حاکم۔ نگران] [عَلَي: پر] [النِّسَاۗءِ: عورتیں] [بِمَا: اس لیے کہ] [فَضَّلَ: فضیلت دی] [اللّٰهُ: اللہ] [بَعْضَھُمْ: ان میں سے بعض] [عَلٰي: پر] [بَعْضٍ: بعض] [وَّبِمَآ: اور اس لیے کہ] [اَنْفَقُوْا: انہوں نے خرچ کیے] [مِنْ: سے] [اَمْوَالِهِمْ: اپنے مال] [فَالصّٰلِحٰتُ: پس نیکو کار عورتیں] [قٰنِتٰتٌ: تابع فرمان] [حٰفِظٰتٌ: نگہبانی کرنے والیاں] [لِّلْغَيْبِ: پیٹھ پیچھے] [بِمَا: اس سے جو] [حَفِظَ: حفاطت کی] [اللّٰهُ: اللہ] [وَالّٰتِيْ: اور وہ جو] [تَخَافُوْنَ: تم ڈرتے ہو] [نُشُوْزَھُنَّ: ان کی بدخوئی] [فَعِظُوْھُنَّ: پس امن کو سمجھاؤ] [وَاهْجُرُوْھُنَّ: اور ان کو تنہا چھوڑ دو] [فِي الْمَضَاجِعِ: خواب گاہوں میں] [وَاضْرِبُوْھُنَّ: اور ان کو مارو] [فَاِنْ: پھر اگر] [اَطَعْنَكُمْ: وہ تمہارا کہا مانیں] [فَلَا تَبْغُوْا: تو نہ تلاش کرو] [عَلَيْهِنَّ: ان پر] [سَبِيْلًا: کوئی راہ] [اِنَّ: بیشک] [اللّٰهَ: اللہ] [كَانَ: ہے] [عَلِيًّا: سب سے اعلی] [كَبِيْرًا: سب سے بڑا]
مرد عورتوں سے افضل کیوں؟
جناب باری ارشاد فرماتا ہے کہ مرد عورت کا حاکم رئیس اور سردار ہے ہر طرح سے اس کا محافظ و معاون ہے اسی لئے کہ مرد عورتوں سے افضل ہیں یہی وجہ ہے کہ نبوۃ ہمیشہ مردوں میں رہی بعینہ شرعی طور پر خلیفہ بھی مرد ہی بن سکتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں وہ لوگ کبھی نجات نہیں پاسکتے جو اپنا والی کسی عورت کو بنائیں۔ (بخاری) اسی طرح ہر طرح کا منصب قضا وغیرہ بھی مردوں کے لائق ہی ہیں۔ دوسری وجہ افضیلت کی یہ ہے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں جو کتاب و سنت سے ان کے ذمہ ہے مثلاً مہر نان نفقہ اور دیگر ضروریات کا پورا کرنا۔ پس مرد فی نفسہ بھی افضل ہے اور بہ اعتبار نفع کے اور حاجت براری کے بھی اس کا درجہ بڑا ہے۔ اسی بنا پر مرد کو عورت پر سردار مقرر کیا گیا جیسے اور جگہ فرمان ہے(وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) 2۔ البقرۃ:228) ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے ۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنے خاوند کی شکایت کی کہ ایک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا ہے۔ پس آپ نے بدلہ لینے کا حکم دیا ہی تھا جو یہ آیت اتری اور بدلہ نہ دلوایا گیا ایک اور روایت کہ ایک انصار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیوی صاحبہ کو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوئے اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خاوند نے مجھے تھپڑ مارا جس کا نشان اب تک میرے چہرے پر موجود ہے آپ نے فرمایا اسے حق نہ تھا وہیں یہ آیت اتری کہ ادب سکھانے کے لئے مرد عورتوں پر حاکم ہیں۔ تو آپ نے فرمایا میں نے اور چاہا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اور چاہا ۔ شعبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں مال خرچ کرنے سے مراد مہر کا ادا کرنا ہے دیکھو اگر مرد عورت پر زنا کاری کی تہمت لگائے تو لعان کا حکم ہے اور اگر عورت اپنے مرد کی نسبت یہ بات کہے اور ثابت نہ کر سکے تو اسے کوڑے لگیں گے۔ پس عورتوں میں سے نیک نفس وہ ہیں جو اپنے خاوندوں کی اطاعت گزار ہوں اپنے نفس اور خاوند کے مال کی حفاظت والیاں ہوں جسے خود اللہ تعالیٰ سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں بہتر عورت وہ ہے کہ جب اس کا خاوند اس کی طرف دیکھے وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے بجا لائے اور جب کہیں باہر جائے تو اپنے نفس کو برائی سے محفوظ رکھے اور اپنے خاوند کے مال کی محافظت کرے پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی مسند احمد میں ہے کہ آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب کوئی پانچوں وقت نماز ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے اس سے کہا جائے گا کہ جنت کے جس دروازے سے تو چاہے جنت میں چلی جا، پھر فرمایا جن عورتوں کی سرکشی سے ڈرو یعنی جو تم سے بلند ہونا چاہتی ہو نافرمانی کرتی ہو بےپرواہی برتتی ہو دشمنی رکھتی ہو تو پہلے تو اسے زبانی نصیحت کرو ہر طرح سمجھاؤ اتار چڑھاؤ بتاؤ اللہ کا خوف دلاؤ حقوق زوجیت یاد دلاؤ اس سے کہو کہ دیکھو خاوند کے اتنے حقوق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم کر سکتا کہ وہ ماسوائے اللہ تعالیٰ کے دوسرے کو سجدہ کرے تو عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ سب سے بڑا حق اس پر اسی کا ہے بخاری شریف میں ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو اپنے بسترے پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو صبح تک فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں صحیح مسلم میں ہے۔ کہ جس رات کوئی عورت روٹھ کر اپنے خاوند کے بستر کو چھوڑے رہے تو صبح تک اللہ کی رحمت کے فرشتے اس پر لعنتیں نازل کرتے رہتے ہیں ، تو یہاں ارشاد فرماتا ہے کہ ایسی نافرمان عورتوں کو پہلے تو سمجھاؤ بجھاؤ پھر بستروں سے الگ کرو، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یعنی سلائے تو بستر ہی پر مگر خود اس سے کروٹ موڑ لے اور مجامعت نہ کرے ، بات چیت اور کلام بھی ترک کر سکتا ہے اور یہ عورت کی بڑی بھاری سزا ہے ، بعض مفسرین فرماتے ہیں ساتھ سلانا ہی چھوڑ دے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عورت کا حق اس کے میاں پر کیا ہے؟ فرمایا یہ کہ جب تو کھا تو اسے بھی کھلا جب تو پہن تو اسے بھی پہنا اس کے منہ پر نہ مار گالیاں نہ دے اور گھر سے الگ نہ کر غصہ میں اگر تو اس سے بطور سزا بات چیت ترک کرے تو بھی اسے گھر سے نہ نکال پھر فرمایا اس سے بھی اگر ٹھیک ٹھاک نہ ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ یونہی سی ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ سے بھی راہ راست پر لاؤ۔ صحیح مسلم میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجتہ الوداع کے خطبہ میں ہے کہ عورتوں کے بارے میں فرمایا اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو وہ تمہاری خدمت گزار اور ماتحت ہیں تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ جس کے آنے جانے سے تم خفا ہو اسے نہ آنے دیں اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں یونہی سے تنبیہہ بھی تم کر سکتے ہو لیکن سخت مار جو ظاہر ہو نہیں مار سکتے تم پر ان کا حق یہ ہے کہ انہیں کھلاتے پلاتے پہناتے اڑھاتے رہو۔ پس ایسی مار نہ مارنی چاہیے جس کا نشان باقی رہے جس سے کوئی عضو ٹوٹ جائے یا کوئی زخم آئے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس پر بھی اگر وہ باز نہ آئے تو فدیہ لو اور طلاق دے دو۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی لونڈیوں کو مارو نہیں اس کے بعد ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورتیں آپ کے اس حکم کو سن کر بہت سی عورتیں شکایتیں لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایا سنو میرے پاس عورتوں کی فریاد پہنچی یاد رکھو تم میں سے جو اپنی عورتوں کو زدو کوب کرتے ہیں وہ اچھے آدمی نہیں (ابو داؤد وغیرہ) حضرت اشعث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مہمان ہوا اتفاقاً اس روز میاں بیوی میں کچھ ناچاقی ہو گئی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیوی صاحبہ کو مارا پھر مجھ سے فرمانے لگے اشعث تین باتیں یاد رکھ جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن کر یاد رکھی ہیں ایک تو یہ کہ مرد سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عورت کو کس بنا پر مارا؟ دوسری یہ کہ وتر پڑھے بغیر سونا مت اور اور تیسری بات راوی کے ذہن سے نکل گئی (نسائی) پھر فرمایا اگر اب بھی عورتیں تمہاری فرمانبردار بن جائیں تو تم ان پر کسی قسم کی سختی نہ کرو نہ مارو پیٹو نہ بیزاری کا اظہار کرو۔ اللہ بلندیوں اور بڑائیوں والا ہے۔ یعنی اگر عورتوں کی طرف سے قصور سرزد ہوئے بغیر یا قصور کے بعد ٹھیک ہو جانے کے باوجود بھی تم نے انہیں ستایا تو یاد رکھو ان کی مدد پر ان کا انتقام لینے کے لئے اللہ تعالیٰ ہے اور یقینا وہ بہت زرو اور زبردست ہے۔