اَمۡ حَسِبۡتَ اَنَّ اَصۡحٰبَ الۡکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنۡ اٰیٰتِنَا عَجَبًا ﴿۹﴾

(9 - الکہف)

Qari:


Or have you thought that the companions of the cave and the inscription were, among Our signs, a wonder?

کیا تم خیال کرتے ہو کہ غار اور لوح والے ہمارے نشانیوں میں سے عجیب تھے

[اَمْ حَسِبْتَ: کیا تم نے گمان کیا] [اَنَّ: کہ] [اَصْحٰبَ الْكَهْفِ: اصحاب کہف (غار والے)] [وَالرَّقِيْمِ: اور رقیم] [كَانُوْا: وہ تھے] [مِنْ: سے] [اٰيٰتِنَا عَجَبًاہماری نشانیاں عجب]

Tafseer / Commentary

اصحاف کہف
اصحاف کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہوگا فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بیشمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے ۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں آسمان زمین کی پیدائش رات دن کا آنا جانا سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلایا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بےانداز ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے اس پر کوئی مشکل نہیں اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے ۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یہ کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے ۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ حنان اور لفظ اواہ اور لفظ رقیم کو ۔ مجھے نہیں معلوم کہ رقیم کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا ۔ اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے ۔ سعید کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا ۔ عبد الرحمن کہتے ہیں قرآن میں ہے کتاب مرقوم پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر (رض) کا مختار قول ہے کہ رقیم فعیل کے زون پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح واللہ اعلم ۔ یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ ۔ ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر ۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اللہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر ۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے ۔ یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے پھر ہم نے انہیں بیدار کیا ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے ؟ اسے ہم بھی معلوم کریں ۔ امد کے معنی عدد یا گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہم کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے ۔

Select your favorite tafseer