اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾

(6 - البقرۃ)

Qari:


Indeed, those who disbelieve - it is all the same for them whether you warn them or do not warn them - they will not believe.

جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لیے برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لانے کے

[إِنَّ: بےشک] [الَّذِينَ: جن لوگوں نے] [کَفَرُوا: کفرکیا] [سَوَاءٌ: برابر] [عَلَيْهِمْ: ان پر] [أَ أَنْذَرْتَهُمْ: خواہ آپ انہیں ڈرائیں] [أَمْ لَمْ: یا نہ] [تُنْذِرْهُمْ: ڈرائیں انہیں] [لَا يُؤْمِنُونَ: ایمان نہ لائیں گے]

Tafseer / Commentary

بدقسمت لوگ
یعنی جو لوگ حق کو پوشیدہ کرنے یا چھپا لینے کے عادی ہیں اور ان کی قسمت میں یہی ہے کہ انہیں آپ کا ڈرانا سود مند ہے اور نہ ہی ڈرانا۔ یہ کبھی اللہ تعالیٰ کی اس وحی کی تصدیق نہیں کریں گے جو آپ پر نازل ہوئی ہے۔ جیسے اور جگہ فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَتُ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ 96۝ۙ وَلَوْ جَاۗءَتْھُمْ كُلُّ اٰيَةٍ حَتّٰى يَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِيْمَ 97؀ ) 10۔یونس:96-97) یعنی جن لوگوں پر اللہ کی بات ثابت ہو چکی ہے وہ ایمان نہ لائیں گے اگرچہ تمام آیتیں دیکھ لیں یہاں تک کہ درد ناک عذاب دیکھیں۔ ایسے ہی سرکش اہل کتاب کی نسبت فرمایا آیت (وَلَىِٕنْ اَتَيْتَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ بِكُلِّ اٰيَةٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَكَ) 2۔ البقرۃ:145) یعنی ان اہل کتاب کے پاس اگرچہ تمام دلائل لے آؤ تاہم وہ تمہارے قبلہ کو نہیں مانیں گے۔ یعنی ان بد نصیبوں کو سعادت حاصل ہی نہیں ہو گی۔ ان گمراہوں کو ہدایت کہاں؟ تو اے نبی ان پر افسوس نہ کر، تیرا کام صرف رسالت کا حق ادا کر دینا اور پہنچا دینا ہے۔ ماننے والے نصیب ور ہیں وہ مالا مال ہو جائیں گے اور اگر کوئی نہ مانے تو نہ سہی۔ تیرا فرض ادا ہو گیا ہم خود ان سے حساب لے لیں گے۔ تو صرف ڈرانے والا ہے۔ ہر چیز پر اللہ تعالیٰ ہی وکیل ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کی بڑی ہی حرص تھی کہ تمام لوگ ایمان دار ہو جائیں اور ہدایت قبول کر لیں لیکن پروردگار نے فرمایا کہ یہ سعادت ہر ایک کے حصہ نہیں۔ یہ نعمت بٹ چکی ہے جس کے حصے میں آئی ہے وہ آپ کی مانے گا اور جو بد قسمت ہیں وہ ہرگز ہرگز اطاعت کی طرف نہیں جھکیں گے۔ پس مطلب یہ ہے کہ جو قرآن کو تسلیم نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم اگلی کتابوں کو مانتے ہیں انہیں ڈرانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ تو خود اپنی کتاب کو بھی حقیقتاً نہیں مانتے کیونکہ اس میں تیرے ماننے کا عہد موجود ہے تو جب وہ اس کتاب کو اور اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کو نہیں مانتے جس کے ماننے کا اقرار کر چکے تو بھلا وہ تمہاری باتوں کو کیا مانیں گے؟ ابو العالیہ کا قول ہے کہ یہ آیت جنگ احزاب کے ان سرداروں کے بارے میں اتری ہے جن کی نسبت فرمان باری ہے آیت ( اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ) 14۔ ابراہیم:28) لیکن جو معنی ہم نے پہلے بیان کئے ہیں وہ زیادہ واضح ہیں اور دوسری آیتوں کے مطابق ہیں۔ واللہ اعلم۔ اس حدیث پر جو ابن ابی حاتم کے حوالے سے ابھی بیان ہوئی ہے دوبارہ نظر ڈال جائیے لا یومنون پہلے جملہ کی تاکید ہے یعنی ڈرانا نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں حالتوں میں ان کا کفر نہ ٹوٹے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لایومنون خبر ہو اس لئے کہ تقدیر کلام آیت (ان الذین کفروا لا یومنون) ہے اور آیت (سواء علیھم) جملہ معترضہ ہو جائے گا واللہ اعلم۔

Select your favorite tafseer