فَاِنۡ اٰمَنُوۡا بِمِثۡلِ مَاۤ اٰمَنۡتُمۡ بِہٖ فَقَدِ اہۡتَدَوۡا ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا ہُمۡ فِیۡ شِقَاقٍ ۚ فَسَیَکۡفِیۡکَہُمُ اللّٰہُ ۚ وَ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۱۳۷﴾ؕ

(137 - البقرۃ)

Qari:


So if they believe in the same as you believe in, then they have been [rightly] guided; but if they turn away, they are only in dissension, and Allah will be sufficient for you against them. And He is the Hearing, the Knowing.

تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں خدا کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے

[فَاِنْ: پس اگر] [اٰمَنُوْا: وہ ایمان لائیں] [بِمِثْلِ: جیسے] [مَا آمَنْتُمْ: تم ایمان لائے] [بِهٖ: اس پر] [فَقَدِ اهْتَدَوْا: تووہ ہدایت پاگئے] [وَاِنْ: اور اگر] [تَوَلَّوْا: انہوں نے منہ پھیرا] [فَاِنَّمَا هُمْ: توبیشک وہی] [فِي شِقَاقٍ: ضد میں] [فَسَيَكْفِيکَهُمُ: پس عنقریب آپ کیلئے ان کے مقابلے میں کافی ہو گا] [اللّٰہُ : اللہ] [وَ: اور] [هُوْ: وہ] [السَّمِيعُ: سننے والا] [الْعَلِيمُ: جاننے والا]

Tafseer / Commentary

شرط نجات
یعنی اپنے ایمان دار صحابیو! اگر یہ کفار بھی تم جیسا ایمان لائیں یعنی تمام کتابوں اور رسولوں کو مان لیں تو حق و رشد ہدایت ونجات پائیں گے اور اگر باوجود قیام حجت کے باز رہیں تو یقینا حق کے خلاف ہیں۔ اللہ تعالیٰ تجھے ان پر غالب کر کے تمہارے لئے کافی ہو گا، وہ سننے جاننے والا ہے۔ نافع بن نعیم کہتے ہیں کہ کسی خلیفہ کے پاس حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ کا قرآن بھیجا گیا زیاد نے یہ سن کر کہا کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ جب حضرت عثمان کو لوگوں نے شہید کیا اس وقت یہ کلام اللہ ان کی گود میں تھا اور آپ کا خون ٹھیک ان الفاظ پڑھا تھا آیت (فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ) 2۔ البقرۃ:137) کیا یہ صحیح ہے؟ حضرت نافع نے کہا بالکل ٹھیک ہے میں نے خود اس آیت پر ذوالنورین کا خون دیکھا تھا (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) رنگ سے مراد دین ہے اور اس کا زبر بطور اغراء کے ہے۔ جسے فطرۃ اللہ میں مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین کو لازم پکڑ لو اس پر چمٹ جاؤ۔ بعض کہتے ہیں یہ بدل ہے ملتہ ابراہیم سے جو اس سے پہلے موجود ہے۔ سیبویہ کہتے ہیں یہ صدر موکد ہے۔ امنا باللہ کی وجہ سے منصوب ہے جیسے وعد اللہ ایک مرفوع حدیث ہے"بنی اسرائیل نے کہا اے رسول اللہ کیا ہمارا رب رنگ بھی کرتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو آواز آئی ان سے کہ دو کہ تمام رنگ میں ہی تو پیدا کرتا ہوں۔ "یہی مطلب اس آیت کا بھی ہے لیکن اس روایت کا موقوف ہونا ہی صحیح ہے اور یہ بھی اس وقت جب کہ اس کی اسناد صحیح ہوں۔

Select your favorite tafseer