فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسَالَۃَ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُحِبُّوۡنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۷۹﴾

(79 - الاعراف)

Qari:


And he turned away from them and said, "O my people, I had certainly conveyed to you the message of my Lord and advised you, but you do not like advisors."

پھر صالح ان سے (ناامید ہو کر) پھرے اور کہا کہ میری قوم! میں نے تم کو خدا کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم (ایسے ہو کہ) خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے

[فَتَوَلّٰى: پھر منہ پھیرا] [عَنْهُمْ: ان سے] [وَقَالَ: اور کہا] [يٰقَوْمِ: اے میری قوم] [لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ: تحقیق میں تمہیں پہنچا دیا] [رِسَالَةَ: پیغام] [رَبِّيْ: اپنا رب] [وَنَصَحْتُ: اور خیر خواہی کی] [لَكُمْ: تمہاری] [وَلٰكِنْ: اور لیکن] [لَّا تُحِبُّوْنَ: تم پسند نہیں کرتے] [النّٰصِحِيْنَ: خیر خواہ (جمع)]

Tafseer / Commentary

صالح علیہ السلام ہلاکت کے اسباب کی نشاندہی کرتے ہیں
قوم کی ہلاکت دیکھ کر افسوس حسرت اور آخری ڈانٹ ڈپٹ کے طور پر پیغمبر حق حضرت صالح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ نہ تمہیں رب کی رسالت نے فائدہ پہنچایا نہ میری خیر خواہی ٹھکانے لگی تم اپنی بےسمجھی سے دوست کو دشمن سمجھ بیٹھے اور آخر اس روز بد کو دعوت دے لی چنانچہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی جب بدری کفار پر غالب آئے وہیں تین دن تک ٹھہرے رہے پھر رات کے آخری وقت اونٹنی پر زین کس کر آپ تشریف لے چلے اور جب اس گھاٹی کے پاس پہنچے جہاں ان کافروں کی لاشیں ڈالی گئی تھیں تو آپ ٹھہر گئے اور فرمانے لگے اے ابو جہل ، اے عتبہ ، اے شیبہ ، اے فلاں، اے فلاں، بتاؤ رب کے وعدے تم نے درست پائے؟ میں نے تو اپنے رب کے فرمان کی صداقت اپنی آنکھوں دیکھ لی ۔ حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ آپ ان جسموں سے باتیں کر رہے ہیں جو مردار ہوگئے؟ آپ نے فرمایا اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میں جو کچھ ان سے کہہ رہا ہوں اسے یہ تم سے زیادہ سن رہے ہیں لیکن جواب کی طاقت نہیں ۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ آپ نے فرمایا تم نے میرا خاندان ہونے کے باوجود میرے ساتھ وہ برائی کی کہ کسی خاندان نے اپنے پیغمبر کے ساتھ نہ کی ۔ تم نے میرے ہم قبیلہ ہونے کے باوجود مجھے جھٹلایا اور دوسرے لوگوں نے مجھے سچا سمجھا ۔ تم نے رشتہ داری کے باوجود مجھے دیس نکالا دیا اور دوسرں نے مجھے اپنے ہاں جگہ دی ۔ افسوس تم اپنے ہو کر مجھ سے برسر جنگ رہے اور دوسروں نے میری امداد کی ۔ پس تم اپنے نبی کے بدترین قبیلے ہو ۔ یہی حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ میں نے تو ہمدردی کی انتہا کر دی اللہ کے پیغام کی تبلیغ میں تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتاہی نہیں کی لیکن آہ نہ تم نے اس سے کوئی فائدہ اٹھایا نہ حق کی پیروی کی نہ اپنے خیر خواہ کی مانی ۔ بلکہ اسے اپنا دشمن سمجھ بعض مفسرین کا قول ہے کہ ہر نبی جب دیکھتا کہ اب میری امت پر عام عذاب آنے والا ہے انہیں چھوڑ کر نکل کھڑا ہوتا ہے اور حرم مکہ میں پناہ لیتا ۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں ہے کہ حج کے موقعہ پر جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) وادی عسفان پہنچے تو حضرت صدیق اکبر (رض) سے دریافت فرمایا کہ یہ کونسی وادی ہے؟ آپ نے جواب دیا وادی عسفان فرمایا میرے سامنے سے حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام ابھی ابھی گذرے اونٹنیوں پر سوار تھے جن کی نکیلیں کھجور کے پتوں کی تھیں کمبلوں کے تہ بند بندھے ہوئے اور موٹی چادریں اوڑھے ہوئے تھے ۔ لبیک پکارتے ہوئے بیت اللہ شریف کی طرف تشریف لے جا رہے تھے ۔ یہ حدیث غریب ہے ۔ صحاح ستہ میں نہیں ۔

Select your favorite tafseer