اِذۡ یُرِیۡکَہُمُ اللّٰہُ فِیۡ مَنَامِکَ قَلِیۡلًا ؕ وَ لَوۡ اَرٰىکَہُمۡ کَثِیۡرًا لَّفَشِلۡتُمۡ وَ لَتَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ؕ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴۳﴾

(43 - الانفال)

Qari:


[Remember, O Muhammad], when Allah showed them to you in your dream as few; and if He had shown them to you as many, you [believers] would have lost courage and would have disputed in the matter [of whether to fight], but Allah saved [you from that]. Indeed, He is Knowing of that within the breasts.

اس وقت خدا نے تمہیں خواب میں کافروں کو تھوڑی تعداد میں دکھایا۔ اور اگر بہت کر کے دکھاتا تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور (جو) کام (درپیش تھا اس) میں جھگڑنے لگتے لیکن خدا نے (تمہیں اس سے) بچا لیا۔ بےشک وہ سینوں کی باتوں تک سے واقف ہے

[اِذْ: جب] [يُرِيْكَهُمُ: تمہیں دکھایا انہیں] [اللّٰهُ: اللہ] [فِيْ: میں] [مَنَامِكَ: تمہاری خواب] [قَلِيْلًا: تھوڑا] [وَلَوْ: اور اگر] [اَرٰىكَهُمْ: تمہیں دکھاتا انہیں] [كَثِيْرًا: بہت زیادہ] [لَّفَشِلْتُمْ: تو تم بزدلی کرتے] [وَلَتَنَازَعْتُمْ: تم جھگڑتے] [فِي الْاَمْرِ: معاملہ میں] [وَلٰكِنَّ: اور لیکن] [اللّٰهَ: اللہ] [سَلَّمَ: بچا لیا] [اِنَّهٗ: بیشک وہ] [عَلِيْمٌ: جاننے والا] [بِذَاتِ الصُّدُوْرِ: دلوں کی بات]

Tafseer / Commentary

لڑائی میں مومن کم اور کفار زیادہ دکھائی دئیے
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی آپ نے اپنے اصحاب سے ذکر کیا یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ آپ کو آپ کی آنکھوں سے ان کی تعداد کم دکھائی۔ جن آنکھوں سے آپ سوتے تھے۔ لیکن یہ قول غریب ہے جب قرآن میں منام کے لفظ ہیں تو اس کی تاویل بلا دلیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ممکن تھا کہ ان کی تعداد کی زیادتی میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہو جائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کرکے دکھائی۔ اللہ پاک دلوں کے بھید سے سینے کے راز سے واقف ہے آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھید جانتا ہے۔ خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تاکہ مسلمان دلیر ہو جائیں اور انہیں کوئی چیز نہ سمجھیں ۔ عبداللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں میں نے اندازہ کرکے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہوں گے اس نے پورا اندازہ کر کے کہا نہیں کوئی ایک ہزار کا یہ لشکر ہے۔ پھر اسی طرح کافروں کی نظروں میں بھی اللہ حکیم نے مسلمانوں کی تعداد کم دکھائی اب تو وہ ان پر اور یہ ان پر ٹوٹ پڑے۔ تاکہ رب کا کام جس کا کرنا وہ اپنے علم میں مقرر کر چکا تھا پورا ہو جائے کافروں پر اپنی پکڑ اور مومنوں پر اپنی رحمت نازل فرما دے۔ جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی یہی کیفیت دونوں جانب رہی لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی مسلمانوں کا لشکر بڑھ گیا اور کافروں کا زور ٹوٹ گیا۔ چنانچہ اب تو کافروں کو مسلمان اپنے سے دگنے نظر آنے لگے اور اللہ نے موحدوں کی مدد کی اور آنکھوں والوں کیلئے عبرت کا خزانہ کھول دیا۔ جیسے کہ ( قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ 13؀) 3- آل عمران:13) میں بیان ہوا ہے۔ پس دونوں آیتیں ایک سی ہیں مسلمان تب تک کم نظر آتے رہے جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی۔ شروع ہوتے ہیں مسلمان دگنے دکھائی دینے لگے۔

Select your favorite tafseer