اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَنۡ تُغۡنِیَ عَنۡہُمۡ اَمۡوَالُہُمۡ وَ لَاۤ اَوۡلَادُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ وَقُوۡدُ النَّارِ ﴿ۙ۱۰﴾

(10 - آل عمران)

Qari:


Indeed, those who disbelieve - never will their wealth or their children avail them against Allah at all. And it is they who are fuel for the Fire.

جو لوگ کافر ہوئے (اس دن) نہ تو ان کا مال ہی خدا (کے عذاب) سے ان کو بچا سکے گا اور نہ ان کی اولاد ہی (کچھ کام آئے گی) اور یہ لوگ آتش (جہنم) کا ایندھن ہوں گے

[اِنَّ: بیشک] [الَّذِيْنَ: وہ لوگ جو] [كَفَرُوْا: انہوں نے کفر کیا] [لَنْ تُغْنِىَ: ہر گز نہ کام آئیں گے] [عَنْھُمْ: ان کے] [اَمْوَالُھُمْ: ان کے مال] [وَلَآ: اور نہ] [اَوْلَادُھُمْ: ان کی اولاد] [مِّنَ: سے] [اللّٰهِ: اللہ] [شَـيْـــــًٔـا: کچھ] [وَاُولٰۗىِٕكَ: اور وہی] [ھُمْ: وہ] [وَقُوْدُ: ایندھن] [النَّارِ: آگ (دوزخ)]

Tafseer / Commentary

جہنم کا ایندھن کون لوگ؟
فرماتا ہے کہ کافر جہنم کی بھٹیاں اور اس میں جلنے والی لکڑیاں ہیں، ان ظالموں کو اس دن کوئی عذر معذرت ان کے کام نہ آئے گی، ان پر لعنت ہے، اور ان کیلئے برا گھر ہے، ان کے مال ان کی اولادیں بھی انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکیں گی، اللہ کے عذاب سے نہیں بچا سکیں گے، جیسا اور جگہ فرمایا آیت (وَ لَا تُعۡجِبۡکَ اَمۡوَالُہُمۡ وَ اَوۡلَادُہُمۡ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّعَذِّبَہُمۡ بِہَا فِی الدُّنۡیَا وَ تَزۡہَقَ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ 9۔ التوبۃ:85) تو ان کے مال و اولاد پر تعجب نہ کرنا اس کی وجہ سے اللہ کا ارادہ انہیں دنیا میں بھی عذاب دینا ہے، ان کی جانیں کفر میں ہی نکلیں گی، اسی طرح ارشاد ہے کافروں کا شہروں میں گھومنا گھامنا تجھے فریب میں نہ ڈال دے، یہ تو مختصر سا فائدہ ہے، پھر ان کی جگہ جہنم ہی ہے جو بدترین بچھونا ہے، اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کی کتابوں کو جھٹلانے والے اس کے رسولوں کے منکر اس کی کتاب کے مخالف اس کی وحی کے نافرمان اپنی اولاد اور اپنے مال سے کوئی بھلائی کی توقع نہ رکھیں، یہ جہنم کی لکڑیاں ہیں جن سے جہنم سلگائی اور بھڑکائی جائے گی، جیسے اور جگہ ہے آیت (اِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ) 21۔ الانبیاء:98) تم اور تمہارے معبود جہنم کی لکڑیاں ہو، ابن ابی حاتم میں ہے حضرت عبداللہ بن عباس عنہما کی والدہ صاحبہ حضرت ام فضل کا بیان ہے کہ مکہ شریف میں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور باآواز بلند فرمانے لگے، لوگو! کیا میں نے اللہ کی باتیں تم تک پہنچا دیں؟ لوگو! کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کردیا؟ لوگو! کیا میں وحدانیت و رسالت کا مطلب تمہیں سمجھا چکا؟ حضرت عمر فرمانے لگے ہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ نے اللہ کا دین ہمیں پہنچایا پھر جب صبح ہوئی تو آپ نے فرمایا سنو اللہ کی قسم اسلام غالب ہوگا اور خوب پھیلے گا، یہاں تک کہ کفر اپنی جگہ جا چھپے گا، مسلمان اسلام اپنے قول و عمل میں لئے سمندروں کو چیرتے پھاڑتے نکل جائیں گے اور اسلام کی اشاعت کریں گے، یاد رکھو وہ زمانہ بھی آنے والا ہے کہ لوگ قرآن کو سیکھیں گے پڑھیں گے (پھر تکبر برائی اور اندھے پن کے طور پر) کہنے لگیں گے ہم قاری ہیں، عالم ہیں، کون ہے جو ہم سے بڑھ چڑھ کر ہو؟ کیا ان لوگوں میں کچھ بھی بھلائی ہوگی؟ لوگوں نے پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون لوگ ہیں، آپ نے فرمایا وہ تم ہی مسلمانوں میں سے ہوں گے لیکن خیال رہے کہ وہ جہنم کا ایندھن ہیں، ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے، اس میں یہ بھی ہے کہ حضرت عمر نے جواب میں کہا ہاں ہاں اللہ کی قسم آپ نے بڑی حرص اور چاہت سے تبلیغ کی، آپ نے پوری جدوجہد اور دوڑ دھوپ کی، آپ نے ہماری زبردست خیرخواہی کی اور بہتری چاہی۔ پھر فرماتا ہے جیسا حال فرعونوں کا تھا اور جیسے کرتوت ان کے تھے، لفظ داب ہمزہ کے جزم سے بھی آتا ہے اور ہمزہ کے زبر سے بھی آتا ہے، جیسا نہر اور نہر، اس کے معنی شان عدالت حال طریقے کے آتے ہیں، امرا القیس کے شعروں میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے، مطلب اس آیت شریف کا یہ ہے کہ کفار کا مال و اولاد اللہ کے ہاں کچھ کام نہ آئے گا جیسے فرعونوں اور ان سے اگلے کفار کو کچھ کام نہ آیا، اللہ کی پکڑ سخت ہے اس کا عذاب دردناک ہے، کوئی کسی طاقت سے بھی اس سے بچ نہیں سکتا نہ اسے روک سکتا ہے، وہ اللہ جو چاہے کرتا ہے، ہر چیز اس کے سامنے حقیر ہے، نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ رَب۔

Select your favorite tafseer