وَ لَا تَقُوۡلَنَّ لِشَایۡءٍ اِنِّیۡ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا ﴿ۙ۲۳﴾

(23 - الکہف)

Qari:


And never say of anything, "Indeed, I will do that tomorrow,"

اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کردوں گا

[وَلَا تَقُوْلَنَّ: اور ہر گز نہ کہنا تم] [لِشَايْءٍ: کسی کام کو] [اِنِّىْ: کہ میں] [فَاعِلٌ: کرنیوالا ہوں] [ذٰلِكَ: یہ] [غَدًا: گل]

Tafseer / Commentary

ان شاء اللہ کہنے کا حکم
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ختم المرسلین نبی کو ارشاد فرماتا ہے کہ جس کام کو کل کرنا چاہو تو یوں نہ کہہ دیا کرو کہ کل کروں گا بلکہ اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ کہہ لیا کرو کیونکہ کل کیا ہوگا ؟ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے ۔ علام الغیوب اور تمام چیزوں پر قادر صرف وہی ہے ۔ اس کی مدد طلب کر لیا کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں حضرت سلیمان بن داؤد علیہ السلام کی نوے بیویاں تھیں ۔ ایک روایت میں ہے سو تھیں ۔ ایک میں ہے بہتر (٧٢) تھیں تو آپ نے ایک بار کہا کہ آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا ہر عورت کو بچہ ہوگا تو سب اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے ، اس وقت فرشتے نے کہا انشاء اللہ کہہ ۔ مگر حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ کہا ، اپنے ارادے کے مطابق وہ سب بیویوں کے پاس گئے ، مگر سوائے ایک بیوی کے کسی کے ہاں بچہ نہ ہوا اور جس ایک کے ہاں ہوا بھی وہ بھی آدھے جسم کا تھا۔ انحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر وہ انشاء اللہ کہہ لیتے تو یہ ارادہ ان کا پورا ہوتا اور ان کی حاجت روائی ہو جاتی ۔ اور یہ سب بچے جوان ہو کر راہ حق کے مجاہد بنتے ۔ اسی سورت کی تفسیر کے شروع میں اس آیت کا شان نزول بیان ہو چکا ہے کہ جب آپ سے اصحاب کہف کا قصہ دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں کل تمہیں جواب دوں گا۔ انشاء اللہ نہ کہا اس بنا پر پندرہ دن تک وحی نازل نہ ہوئی ۔ اس حدیث کو پوری طرح ہم نے اس سورت کی تفسیر کے شروع میں بیان کر دیا ہے یہاں دوبارہ بیان کرنے کی حاجت نہیں ۔ پھر بیان فرماتا ہے کہ جب بھول جائے تب اپنے رب کو یاد کر یعنی انشاء اللہ کہنا اگر موقعہ پر یاد نہ آیا تو جب یاد آئے کہہ لیا کر ۔ حضرت ابن عباس (رض) اس شخص کے بارے میں فرماتے ہیں جو حلف کھائے کہ اسے پھر بھی انشاء اللہ کہنے کا حق ہے گو سال بھر گزر چکا ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے کلام میں یا قسم میں انشاء اللہ کہنا بھول گیا تو جب بھی یاد آئے کہہ لے گو کتنی مدت گزر چکی ہو اور گو اس کا خلاف بھی ہو چکا ہو ۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ اب اس پر قسم کا کفارہ نہیں رہے گا اور اسے قسم توڑنے کا اختیار رہے ۔ یہی مطلب اس قول کا امام ابن جریر رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے اور یہی بالکل ٹھیک ہے اسی پر حضرت عباس (رض) کا کلام محمول کیا جا سکتا ہے ان سے اور حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ مراد انشاء اللہ کہنا بھول جانا ہے ۔ اور روایت میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے ، دوسرا کوئی تو اپنی قسم کے ساتھ ہی متصل طور پر انشاء اللہ کہے تو معتبر ہے ۔ یہ بھی ایک مطلب ہے کہ جب کوئی بات بھول جاؤ تو اللہ کا ذکر کرو کیونکہ بھول شیطانی حرکت ہے اور ذکر الہٰی یاد کا ذریعہ ہے ۔ پھر فرمایا کہ تجھ سے کسی ایسی بات کا سوال کیا جائے کہ تجھے اس کا علم نہ ہو تو تو اللہ تعالیٰ سے دریافت کر لیا کر اور اس کی طرف توجہ کر تاکہ وہ تجھے ٹھیک بات اور ہدایت والی راہ بتا اور دکھا دے ۔ اور بھی اقوال اس بارے میں مروی ہیں ۔ واللہ اعلم ۔

Select your favorite tafseer